ایشیا کے کئی ممالک اس وقت عالمی وبا کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہیں اور ویکسین لگانے کی مہم ناکافی ہونے کے باعث گذشتہ سال کے مقابلے میں ایشیائی ملکوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ متاثرہ ممالک کی حکومتوں کا کرونا وائرس سے بچاو کے لئے بڑے پیمانے پر لاک ڈاون کی بندشوں اور سرحدوں پر نقل و حرکت کے اقدامات سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت سے پھیلنے والا ڈیلٹا وائرس، ایئر لائنز کے عملے کا وائرس سے متاثر ہونا اور ان ملکوں کے شہریوں کا بیرونِ ملک سفر کے بعد وائرس کا ملک میں لانا کووڈ نائنٹین کے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
گذشتہ کئی ماہ کے دوران کرونا کے کیسز میں کمی کے پس منظر میں کئی ایشیائی ممالک نے کرونا وائرس کی روک تھام کے لئے عائد پابندیوں کو نرم کردیا تھا اور اندرون ملک سفر میں تیزی دکھائی دے رہی تھی۔
بینکاک سےتائپے تک ملکوں نے پچھلے سال ویکسین کے حصول کو اپنی ترجیحات کی فہرستوں سے ہٹا دیا تھا۔
اس کے مقابلے میں مغربی ممالک نے ویکسین کی مہمات تیزتر کررکھی تھیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں 87 فیصد لوگوں کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ یہاں امریکہ میں کوئی بھی بالغ فرد کسی بھی دوا کے اسٹورسے ویکسین لگواسکتا ہے۔
بہت سے ایشیائی ممالک نے 2020 میں بیرون ملک سے مسافروں کے آنے پر پابندی لگا کر اور عوامی اجتماع کے مقامات کو بند کر کے سانس کے مرض پر قابو پالیا تھا۔ اور ایشیائی ملکوں میں پیداوار پر انحصار کرنے والی معیشتوں نے کام کرنے کے مواقع برقرار رکھتے ہوئے عالمی وبا کا سامنا بھی کیا تھا۔
ان سارے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے بنکاک کی چلالانگ کرن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر تھیٹی نان پانگ سدھیرک نے موجودہ خراب صورت حال کو حالات سے مطمئن ہونے کا برا اثر قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھائی لینڈ نے گذشتہ سال وائرس کی روک تھام میں اتنی اچھی کارکردگی دکھائی لیکن وہ اپنی کارکردگی پر مطمئن ہو کر بیٹھ گیا اور یوں ویکسین کے حصول میں دوسرے ممالک سے کہیں پیچھے رہ گیا۔
تنظیم "آور ورلڈ ان ڈیٹا " کے اعدادو شمار کے مطابق تھائی لینڈ میں کل آبادی کے محض پانچ فیصد لوگوں نے ہی ویکسینشن کی خوراکیں مکمل کی ہیں۔ جبکہ ویت نام میں مکمل ویکسین کی شرح صرف ایک فیصد ہے۔
دونوں ملکوں میں کروناوائرس کے کیسز ریکارڈ سطحوں پر پہنچ گئے ہیں۔ تھائی لینڈ میں اٹھارہ جولائی کو 11,397 کے یومیہ ریکاڈ کیسز سامنے آئے جبکہ ویت نام میں اسی روز 5,926 لوگوں میں کووڈ نائنٹین کی تشخیص ہوئی۔
ادھر تائیوان میں، جہاں رواں برس مئی میں عالمی وبا کی پہلی بڑی لہر نے ملک کو آلیا،جولائی کے وسط تک محض 50 فیصد لوگوں نے ویکسین کی دو خوراکیں لگوائی تھیں جبکہ بیس فیصد نے ایک خوراک لگوا رکھی تھی۔
فلپائن نے گزشتہ پورا سال عالمی وبا سے ڈٹ کے مقابلہ کیا لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ہر روز کووڈ نائنٹین کے 5,000 کیسز سامنے آرہے ہیں۔
ملائیشیا میں بھی حالات خراب ہیں اور پندرہ جولائی کو ملک میں یومیہ کووڈ نائنٹین کیسز کی 13,215 ریکارڈ تعداد رپورٹ ہوئی۔
دونوں ملکوں میں مرض کے متاثرہ افراد کو علیحدہ کرنے کے سخت قوائد نافذ ہیں۔
وبا کے اس پھیلاؤ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایشیا ئی ممالک کو اب مغرب کی دوا ساز کمپنیوں سے ویکسین حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے کیونکہ دوا ساز کمپنیاں پہلے سے موصول طلب کے آرڈرز کو نمٹانے میں مصروف ہیں۔
تازہ ترین رپورٹس کے مطابق کیونکہ ایشیائی ممالک مقامی کمپنیوں کو دواسازی کی اجازت میں بہت وقت لیتے ہیں، ان ملکوں کے باشندے عالمی وبا کے نتائج سے پریشان ہیں۔ کئی جگہوں پر دوا کو محفوظ کرنے کے سرد ذخیرہ خانے بھی کم پڑگئے ہیں۔
نتیجتاً بہت سے ممالک نے ویکسین کے حصول کے لیے عطیات پر انحصار کر رکھا ہے یا وہ چین، جاپان اور امریکہ سے ویکسین خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تائیوان اور ویت نام نے ملک کے اندر بنائی گئی ویکسین سے دوا کی رسد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
جاپان نے ویت نام کو اٹھارہ لاکھ ڈالرز دینے اور ویکسین کو محفوظ رکھنے کے لیے سرد ذخیرہ خانے کی سہولت کی بھی پیش کش کی ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا کے ساڑھے چھیاسٹھ کروڑ لوگوں کو اب کاروبار بند ہونے کے باعث اقتصادی کارروائیوں میں جمود کا سامنا ہے کیونکہ وبا کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر حکومتوں نے بندشوں اور لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
دریں اثنا ایشیائی ترقیاتی بنک نے خطے میں معیشت کی شرح نمو کو کم کرکے چار فیصد تک کی پیشین گوئی کی ہے۔
ایشیا پیسیفک کے اعلی ترین معیشت دان راجیو بسواس کا کہنا ہے کہ خطے کے مملک کی اقتصادی صورتِ حال میں بہت تبدیلی ائی ہے اور اب اس کے حالات یورپ اور امریکہ کے حالات کے برعکس ہیں۔ٓ
بسواس کے مطابق بھارت سے آنے والے ڈیلٹا وائرس کے کیسز میں اضافے نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔
دوسری طرف ایشیائی ممالک کی حکومتیں توقع رکھتی ہیں کہ رواں سال کے دوسرے حصے میں ویکسین کی دستیابی میں بہتری آئے گی اور زیادہ لوگوں کو وائرس سے بچانے کی خوراکیں دی جاسکیں گی۔
اقتصادی ماہر اور ملایشیئن بنک سی آئی ایم بی کے معیشت دان سانگ سینگ ون کہتے ہیں کہ ترقی میں سست روی مستقل نہیں ہوتی اور ویکسین کی دستیابی سے اقتصادی بحالی ممکن ہو سکے گی۔