رسائی کے لنکس

عرب دنیا میں آمریت کے خلاف تحریک، امریکہ کے لیے نیا چیلنج


عرب دنیا میں آمریت کے خلاف تحریک، امریکہ کے لیے نیا چیلنج
عرب دنیا میں آمریت کے خلاف تحریک، امریکہ کے لیے نیا چیلنج

صدر اوباما کے عہدہ صدارت کی میعاد ختم ہونے میں ابھی دو سال باقی ہیں ، مگر عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاک افغان خطے کے ساتھ ساتھ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت ، شمالی کوریا اور ایران کے ایٹمی عزائم اور اب عرب دنیا میں آمریت کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد کا مطلب ہے کہ اوباما انتطامیہ کے خارجہ چیلنجز میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

اپنے سٹیٹ آف دا یونین خطاب میں صدر اوباما نےجمہوریت کی جدو جہد کرتے تیونس کے عوام سے اظہار یکجہتی کیاتھا اور جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کے انعقاد کو عوامی خواہشات کی کامیابی قرار دیا تھا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی جمہوریت کا ماڈل دنیا کی دیگر جمہوریتوں جیسا نہ ہو نے کے باوجود امریکہ اگلے دو برسوں میں دنیا کے دوسرے ملکوں میں جمہوریت کا حامی ہی رہے گا ۔

واشنگٹن میں قائم امریکی تھینک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے اسکالر رابرٹ کیگن کہتے ہیں کہ اگرچہ لوگوں کا خیال تھا کہ صدر اوباما کو اپنا جمہوری ایجنڈا ہی ترک کرنا پڑے گا کیونکہ صدر بش نے اسے نقصان پہنچایا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں آپ اس معاملے پراوباما انتظامیہ کی توجہ میں اضافہ دیکھیں گے ۔

رابرٹ کیگن چین کے ساتھ امریکہ کے خارجہ تعلقات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کے مطابق چین کو ایک ابھرتی ہوئی ایسی طاقت بنتے دیکھنا امریکہ کے مفاد میں نہیں ، جس کے تحت مشرقی ایشیا کے ممالک امریکہ کے بجائے چین کے حلقہ اثر میں چلے جائیں ۔ لیکن بعض ماہرین کے مطابق دونوں کوریاؤں کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کوئی کشیدگی امریکی خارجہ پالیسی کا امتحان ثابت ہوگی۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے اسکالر کینتھ لائبرتھل کہتے ہیں کہ اس امکان پر ہم نے چین ، جاپان یا جنوبی کوریا سے اب تک کھل کر بات نہیں کی ہے کہ ایسا ہوا تو ان کا رد عمل کیا ہوگا ۔ چینی فوج کا شمالی کوریا کی سرحد پر کیا رویہ ہوگا ۔ امریکی فوج خطے میں کیا کرے گی ، گویا تمام فریقوں کے لئے صورتحال بےحد خطرناک ہوجائے گی۔

دوسری طرف واشنگٹن کے ماہرین مشرق وسطی اور ایران کے ایٹمی عزائم روکنے کے ساتھ عراق میں امریکی کامیابیوں کو نازک قرار دے رہے ہیں۔ لیکن خارجہ امور کے ماہرین پاکستان اور افغانستان کو صدر اوباما کے لئےانتہائی اہم خارجہ پالیسی چیلنج قرار دیتے ہیں۔ مسلمان ملکوں میں امریکی جنگوں کے نتائج پر کتاب لکھنے والے ایک امریکی مصنف نیر روزن کا کہنا ہے کہ عراق جنگ سے سیکھے ہوئے سبق یہی بتاتے ہیں کہ افغانستان کے پائیدار حل کے لئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بڑھتی جا رہی ہے ۔

نیرروزن کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، اس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہئے فوجی نہیں ۔ میرے خیال میں کم از کم فوجی کارروائیوں میں کمی کی جانی چاہئے اور ماننا چاہئے کہ اور طالبان سے علاقائی سطح پر ، مقامی سطح پر اور کسی بھی سطح پر مذاکرات واحد حل ہیں ، کیونکہ طالبان اس افغان منظر نامے کابہت اہم کردار ہیں ۔ جتنا ہم انہیں ٹالتے جائیں گے اتنا ہی وہ باغی ہوتے جائیں گے ۔ ایسا کرنے کے لئے 2014ء تک انتظار نہیں کرنا چاہئے جب امریکی فوج وہاں سے نکل رہی ہوگی ، میرے خیال میں بہت سے لوگ پہلے ہی کسی وجہ کے بغیر مارے جا چکے ہیں ۔ اور آخر میں یہ کہوں گا مذکرات بہت سینئیر لیول پر ملا عمر جیسےطالبان سے ہونے چاہئیں ۔

نیر روزن کے مطابق امریکہ کو دنیا کا ہر مسئلہ حل کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لینے کے بجائے خود اپنے مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان سے نمٹنا پاکستان کا اپنا مسئلہ ہے ، لیکن امریکی فوج کی خطے میں موجودگی اس کام کو مشکل بناسکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی طالبان کا وجود شاید امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کا نتیجہ ہو ، لیکن میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ امریکی مسئلہ ہے۔ ہاں بدقسمتی سے یہ ایک تحفہ ہے جو ہم نے پاکستان کو دیا لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے پاکستان کو خود نمٹنا ہوگا ۔ یقینا امریکی موجودگی اس کام کو مشکل بنا دے گی یعنی تشدد اور غصہ بڑھے گا ۔

ان کا کہناہے کہ امریکی موجودگی کم کرنے سے ، فوجی کردار کم کرنے سے کچھ نہ کچھ تشدد اور عدم استحکام کم ہوگا ۔ لیکن ہم نے واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا ہے جس پر قابو پانامشکل ہوگا ۔ اور ُاس خطے کے لوگ اتنے ہی اس کا شکار ہیں ، جتنا کہ عراق کے لوگ خانہ جنگی کا شکار تھے ۔

نیر روزن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی موجودگی تشدد کے خاتمے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی ۔ تاہم امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء ایک حل کا آغاز ضرور ہوسکتا ہے ۔

XS
SM
MD
LG