میرا دل ڈوب رہا ہے، پیسہ پیسہ جوڑ کر بڑھاپے کے لیے ایک گھر بنایا تھا، غلطی بحریہ ٹاؤن کی ہے یا سی ڈی اے کی، مجھے کیا، مجھے تو برباد کردیا نا”یہ الفاظ بیس سال سے امریکہ میں مقیم میاں خرم کے ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
پاکستان میں ان دنوں تجاوزات کے خلاف بھرپور مہم چل رہی ہے جس میں بحریہ انکلیو اسلام آباد میں بحریہ ٹاون نے مبینہ طور پر ایک ہزار کنال زمین پر قبضہ کر رکھا ہے، اس میں سے پانچ سو کنال زمین پر مکانات اور کمرشل دکانیں بھی بن چکی ہیں لیکن اب سی ڈی اے اس تمام علاقہ کو تجاوزات قرار دیکر گرانا چاہتا ہے اور پیر کے روز اس سلسلہ میں آپریشن شروع کردیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات بھاری مشینری کے ساتھ بحریہ انکلیو پہنچے اور اس کے باہر موجود مکانات اور دکانوں کو گرانا شروع کردیا، اس موقع پر امن وامان کی صورتحال سے بچنے کے پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری بھی موجود تھی، حمزہ شفقات نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بحریہ انکلیو میں آپریشن کی اطلاع دی جس میں بھاری مشینری کے ذریعے گھروں کو گرایا جارہا تھا۔
متاثرہ میاں خرم کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض سے رابطہ ہوا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ متاثرین کو پلاٹ دیں گے۔ لیکن میرا مسئلہ ہے کہ میں نے ڈیڑھ کروڑ روپے میں پلاٹ خریدا تھا اور گھر کی تعمیر پر ڈھائی کروڑ لگ گئے، اب گھر کی تعمیر مکمل ہوچکی اور پینٹ کا کام جاری تھا کہ اس کو گرانے والے آگئے ہیں، اس سٹرکچر کے اوپر جو اخراجات آئے وہ کون ادا کرے گا؟
اس معاملہ میں سی ڈی اے کا کردار بھی مشکوک قرار دیا جارہا ہے، جس وقت بحریہ انکلیو کی تعمیر کی جارہی تھی اس وقت قریب ہی پارک انکلیو سی ڈی اے کا پراجیکٹ تھا جو تعمیر کیا گیا لیکن اگر بحریہ انکلیو زمینوں پر قبضہ کررہا تھا تو اس وقت اسے کیوں نہیں روکا گیا؟
اس حوالے سے سی ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ بحریہ انتظامیہ کو متعدد بار غیر قانونی تعمیرات گرانےکا نوٹس جاری کیا گیا تھا، لیکن قبضہ خالی نہ کرنے پر ان کے خلاف آپریشن شروع کیا جارہا ہے۔
صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی بھی موقع پر پہنچ گئے، انہوں نے کہا کہ بحریہ انکلیو نے 514 کنال اراضی پر قبضہ کرکے تعمیرات کر رکھی تھیں، سی ڈی اے نے بحریہ انکلیو کو نوٹس جاری کیے اور آج یہاں پر تجاوزات کو مسمار کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران 65 کمرشل عمارتوں کو گرا دیا گیا ہے۔
شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ پہلے قانون صرف غریب پر لاگو ہوتا تھا لیکن موجودہ حکومت کا موقف صاف اور واضح ہے۔ ہم تجاوزات کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ کسی نہ کسی نے تجاوزات مافیا کو سہولت دی ہے ایسے تمام لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایات ہیں کہ معصوم لوگوں کو تنگ نہیں کرنا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بحریہ انکلیو کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو معاوضہ دے جن کا تجاوزات کے خلاف آپریشن میں نقصان ہوا ہے۔
آپریشن کے دوران بحریہ انکلیو کے مرکزی داخلی گیٹ کے قریب واقع مزدوروں کے ڈھابے بھی گرادیے گئے، ان افراد کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی قبضہ نہیں کیا یہ متاثرین کی زمین تھی جس کا باقاعدہ کرایہ دیا جاتا تھا، متاثرہ شخص محمد صفدر کا کہنا تھا کہ اس ڈھابہ ہوٹل کے ذریعے سات لوگوں کا روزگار لگا ہوا تھا لیکن آج اس کو گرا دینے سے ہم سب بے روزگار ہوگئے، عمران خان تو لوگوں کے روزگار کا کہتے تھے لیکن یہاں لوگوں کے لگے لگائے روزگار کو تباہ کیا جارہا ہے.
تجاوزات کے خلاف آپریشن کو ایک احسن اقدام مانا جارہا ہے لیکن جن لوگوں کا نقصان ہورہا ہے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے قانونی طور پر تمام ادائیگیاں کرنے کے بعد زمین خریدی اور مکان تعمیر کیے ہیں.
دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی بحریہ ٹاؤن راول پنڈی کےخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے سوال کیا کہ پرویز الہی کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں کس قانون کے تحت بحریہ ٹاؤن کو زمین دی گئی۔ چوہدری شجاعت ان کے بیٹے سالک اور بیوی کے نام زمین کیسے منتقل ہوگئی؟
اس کیس میں راول پنڈی کے علاقہ تخت پڑی میں جنگلات کی 2210 ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا جس میں سے کچھ زمین سابق وزیراعلیٰ اور ان کے بھائیوں کے نام بھی کی گئی۔ عدالت کے مطابق موضع تخت پڑی میں بحریہ ٹاون کے لیے زمین کی حد بندی پرویز الہی کے احکامات پر کی گئی اور صوبائی حکوت کی زمین بحریہ ٹاون کو چلی گئی۔
اس بارے میں وی او اے نے بحریہ ٹاؤن سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن اب تک بحریہ ٹاؤن کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔