پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک 55 سالہ شخص کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔
جماعت احمدیہ سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق پچپن سالہ داؤد احمد مبینہ ٹاؤن تھانے کی حدود میں گلزار حجری میں اپنی رہائش گاہ کے باہر ایک دوست کا انتظار کر رہے تھے جب انھیں نشانہ بنایا گیا۔
اطلاعات کے مطابق دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر آئے اور ان پر فائرنگ کر دی۔ قریب ہی موجود ان کا دوست جب ان کو بچانے کے لیے ان کی طرف بڑھا تو حملہ آوروں نے اس پر بھی گولیاں چلائیں اور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
دونوں کو اسپتال لے جایا گیا مگر داؤد احمد اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے جبکہ ان کے دوست کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
داؤد احمد نے سوگواران میں تین بیٹے چھوڑے ہیں۔ ان کی اہلیہ کا انتقال چند برس قبل ہو گیا تھا۔
جماعت احمدیہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ داؤد احمد کا کسی سے کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا اور انہیں صرف "احمدی" ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
جماعت کے ترجمان سلیم الدین نے اس قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’تیس احمدیوں کو کراچی میں نشانہ بنایا جا چکا ہے مگر ان میں سے ایک کے قاتل کو بھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔‘‘
پاکستان میں اس سے قبل بھی احمدی برادری سے تعلق رکھنے والوں پر ہلاکت خیز حملے ہو چکے ہیں۔ ملکی آئین میں اس فرقے کے لوگ غیر مسلم ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں پاکستانی حکومت پر زور دیتی آئی ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر ہونے والی قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدام کرے۔
حکومتی عہدیدار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک میں تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدام کیے گئے ہیں۔