صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے ریاست ایری زونا میں میکسیکو کی سرحد پر فولادی باڑ لگانے کی ابتدا کر دی ہے اور یوما کے علاقے میں تعمیراتی سامان پہنچایا جا رہا ہے۔ جب کہ ایک تعمیراتی ٹیم بھی وہاں پہنچ چکی ہے۔
جہاں یہ باڑ تعمیر کی جائے گی وہاں گرد سے اٹی سڑک کے اطراف میں کجھور کے درخت دکھائی دیتے ہیں۔ سڑک سے چند فٹ کے فاصلے پر دریائے کولوراڈو کا خشک پاٹ ہے۔ تقریباً 9 کلومیٹر باڑ کا حصہ یہاں بنایا جائے گا۔ باڑ کی اونچائی 30 فٹ ہو گی۔
یوما کے جنوب میں جہاں باڑ لگائی جا رہی ہے، وہاں پانچ میل کا وہ علاقہ بھی شامل ہے جس کے بارے میں صدر ٹرمپ کو تشویش رہی ہے اور اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ کہتے رہے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد یہ بارڈر عبور کر کے امریکہ میں داخل ہوتی ہے۔
ٹرمپ چاہتے ہیں کہ پوری جنوبی سرحد پر اونچی اور ناقابل عبور باڑ لگا دی جائے تاکہ میکسیکو کے راستے سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو روکا جا سکے۔
اس سرحد پر پہلے سے ایک باڑ نصب ہے لیکن اس سے صرف موٹرگاڑیوں کی آمد و رفت روکی جا سکتی ہے، لیکن پیدل آنے جانے والوں کو نہیں۔ جب کہ 30 فٹ اونچی باڑ پیدل سرحد پار کرنے والوں کا ر استہ بھی مسدود کر دے گی، جن میں سے اکثر انتہائی غربت سے مجبور ہو کر سرحد عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے اس ہفتے کہا تھا کہ 2020 کے آخر تک تقریباً 2000 میل لمبی سرحد پر ساڑھے چار سو سے پانچ سو میل کے درمیان باڑ کھڑی کر دی جائے گی۔
باڑ کے لیے فنڈز فوج کے اس بجٹ سے لیے گئے ہیں جو فوجی اسکولوں اور دوسری تنصیبات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
پنٹاگان کے فنڈ سے دو اور منصوبے ریاست نیو میکسیکو اور ایری زونا میں چل رہے ہیں۔ تاہم کئی تجزیہ کار اس پر شک و شہبے کا اظہار کرتے ہیں کہ آیا اتنے مختصر وقت میں اتنا بڑا کام پایہ تکمیل کو پہنچ پائے گا۔
سرحدی محافظوں کا کہنا ہے کہ اس سال میں انہوں نے اب تک سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 51 ہزار سے زیادہ خاندانوں کو روکا ہے جب کہ پچھلے سال یہ تعداد ساڑھے 14 ہزار خاندان تھی۔ جو پچھلے سال کے مقابلے میں 250 فی صد زیادہ ہے۔
یوما کا سیکٹر جنوبی سرحد پر تین مصروف ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
باڑ کی تعمیر کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کو کئی مشکلات کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی مخالفت کے علاوہ کئی زمین مالکان نے حکومت کے خلاف مقدمے دائر کر دیے ہیں اور باڑ کے لیے اپنی زمین دینے پر تیار نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ ماحولیات کے ماہرین بھی باڑ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان جانوروں کی آمد و رفت کا راستہ بند ہو جائے گا جو پانی کی تلاش میں سرحد کے آر پار سفر کرتے رہتے ہیں۔
جہاں باڑ لگائی جا رہی ہے اس علاقے میں آبائی امریکی باشندوں کا ایک قبیلہ بھی آباد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مقدس مقامات سرحد کی دوسری جانب ہیں۔ وہ اونچی باڑ کی وجہ سے انہیں دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے۔