سی آئی اے ڈائریکٹر لی آن پنیٹا کا کہنا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف آپریشنز کی وجہ سے القاعدہ کی سینیئر قیادت پر شدید دباؤ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ا یسا دکھائی دیتا ہے کہ اب انہوں نے اپنا طریقہ کار تبدیل کرکے بڑے حملو ں کے بجائے چھوٹی کاروائیاں کرکے مغربی معیشتوں کو مفلوج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سی آئی اے کے چیف کا کہنا ہے کہ القاعدہ اب امریکہ میں کاروائیوں کے لیے ان لوگوں کو استعمال کررہی ہے جن کا ماضی میں دہشت گردی سے ، یا کسی دہشت گرد گروپ سے کوئی تعلق نہ رہا ہو۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار بروس رائیڈل کا کہنا ہے کہ القاعدہ کو اب11 ستمبر جیسے حملوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اب اس گروپ کا فوکس ایسے چھوٹے چھوٹے حملے ہیں جو کہ مغربی معیشت کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اپنے تجزیے کے حق میں رائیڈل نے القاعدہ کے ترجمان آدم غدان کے ایک حالیہ وڈیو میسج کا حوالہ دیا۔
اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ’تمہیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ امریکہ اور مغرب میں صرف فوجی اڈے ہی بہتر ٹارگٹ ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار ایسے ادارے اور تنصیبات ہیں جن پر حملہ کر کے مسلمان صلیبی مغرب کو بے پناہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
غدان نے اس بیان میں آرمی کے ماہر نفسیات میجر ندال حسن کے ایک آرمی بیس فورٹ ہڈ میں اپنے ساتھیوں پر فائرنگ کے واقعہ کا حوالہ دیا ہے۔
رائیڈل نے غدان کے وڈیو میسج کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔جس میں کہا گیاتھا کہ یہ ذہن نشین رہے کہ ٹرانسپورٹ سسٹم پر بظاہر ناکام حملے بھی بڑے شہروں کو مفلوج کرسکتے ہیں اور دشمن کی بڑی کارپوریشنز کو دیوالیہ کرکے دشمن کو اربوں کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
رائیڈل کا کہنا ہے کہ القاعدہ پوری دنیا سے اپنے حامیوں کی بھرتی کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔انکا کہنا ہے کہ القاعدہ کی حکمت عملی میں تبدیلی افغانستان اور پاکستان بارڈر پر اسکی پناہ گاہوں پر حملے اور امریکی ڈرون حملوں میں تیزی کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 55 ڈرون حملے ہوئے تھے جبکہ اس سال ان کی تعداد بڑھ کر سو سے زیادہ ہو جائیگی۔ اسکا مطلب ہے کہ پاکستان، افغانستان یا کسی اور جگہ القاعدہ پر ہر 72 گھنٹے میں ایک حملہ ہوگا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے لیڈروں کے پکڑنے یا مارنے سے اب کچھ فرق نہیں پڑتا۔
رائیڈل کا کہنا ہے پبلک کے سامنے آنے کے بجائے القاعدہ کا وڈیو اور آڈیو میسجز پر انحصار کا مقصد خود کو قانون سے بالا تر ثابت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت خطرناک رجحان ہے اور اس کو روکنا ضروری ہے۔القاعدہ کا یہ طریقہ کار بہت عرصے سے جاری ہے جسکی وجہ سے انہیں ایک پراسرار درجہ حاصل ہوگیا ہے جسے دور کرنا بہت ضروری ہے۔
فنائنشل ٹائمز کے ایڈورڈ لوس کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے ٹاپ لیڈرز کو ختم کرنے سے کچھ حاصل نہ ہوگا جب تک مسئلہ فلسطین کو حل نہیں کیا جاتا کیونکہ القاعدہ کی کاروائیوں کی بنیاد یہی مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا میں 10 سے20 فیصد آبادی کی القاعدہ کے لیے حمایت کی بنیا د یہ ہی مسئلہ ہے۔
تجزیہ کاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کے مسلم ممالک میں القاعدہ کی حمایت میں کمی ہورہی ہے لیکن انٹر نیٹ پر نئے لوگوں کی بھرتی سے دنیا کے لیے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔