رسائی کے لنکس

العزیزیہ ریفرنس، معاملہ کیا ہے؟


فائل
فائل

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ لیکس کا فیصلہ آنے کے بعد دائر کیے گئے ریفرنسز میں سے ایک ریفرنس العزیزیہ سٹیل مل کے حوالے سے بھی تھا جس میں نواز شریف کو احتساب عدالت نے سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط اور تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔

اس اہم کیس پر نواز شریف کی اپیل کی سماعت بدھ کو ہو رہی ہے۔

نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کے حوالے سے جو ویڈیو اسیکنڈل پیش کیا تھا ان ویڈیوز کو اس کیس سے منسلک کیا جا چکا ہے۔ جج ارشد ملک کو او ایس ڈی بھی بنا دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جج ارشد ملک کے کردار نے ایماندار ججوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔ ایسی صورتحال میں اب اس اپیل کا کیا ہوگا؟ اس کا فیصلہ آج سے شروع ہونے والی سماعت پر ہوگا۔ لیکن، نواز شریف کے ساتھ اس کیس سمیت کیا کیا ہوا؟ معاملہ ہے کیا؟

پانامہ لیکس، نواز شریف مشکل میں

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی مشکلات کا آغاز 3 اپریل 2016 کو اس وقت ہوا جب پاناما کی ایک لا فرم موزیک فونسیکا سے چرائی گئی ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات صحافیوں کے ایک بین الاقوامی کنسورشیم کے ذریعے تحقیقات کے بعد لیک ہوئیں، جس سے دنیا بھر کے امیر افراد کے 'آف شور' کمپنیوں کے ذریعے چھپائے گئے اثاثوں کا انکشاف ہوا۔ ان دستاویزات میں نواز شریف سمیت کئی حکمرانوں کے نام سامنے آئے۔

پاناما لیکس کے پاکستان سے متعلق ابواب میں انکشاف ہوا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور وہ لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں فلیٹس کے بھی مالک ہیں۔

اس انکشاف کے بعد مخالفین کی جانب سے یہ الزامات لگائے گئے کہ یہ اثاثے مبینہ طور پر منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔ جس پر تحقیقات شروع ہوئیں اور معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کردہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے چند ہفتوں کے دوران تحقیقات مکمل کیں جن کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔

ریفرنس دائر

سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنس 8 ستمبر 2017 کو احتساب عدالت میں دائر کیے۔ نیب کے مطابق نواز شریف نے اپنی وزارت اعلیٰ اور وزارت عظمیٰ کے دوران حسن اور حسین نواز کے نام بے نامی جائیدادیں بنائیں۔

اس دوران بچے ان کے زیر کفالت تھے اور بچوں کے نام 16 آف شور کمپنیاں بنائی گئیں۔ 4.2 ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کے لیے بچوں کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ نواز شریف ہی العزیزیہ اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک ہیں۔

شریف خاندان کا موقف تھا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدارانہ ہے۔ بچوں نے دادا سے ملنے والی رقم کے ذریعے مل اور کمپنی بنائی۔ العزیزیہ سٹیل ملز قطری سرمایہ کاری سے خریدی گئی۔ حسن نواز کو کاروبار کے لیے سرمایہ بھی قطری شہزادے نے فراہم کیا، جس کی بنیاد پر فلیگ شپ کمپنی بنائی گئی۔ تمام جائیدادیں بچوں کے نام ہیں۔ نواز شریف کا ان جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

العزیزیہ ریفرنس

احتساب عدالت میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق العزیزیہ اسٹیل ملز سعودی عرب میں 2001 میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005 میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی۔

نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا کہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے، جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔

العزیزیہ ریفرنس کے ساتھ فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت بھی جاری تھی جس میں انہیں بری کردیا گیا۔ البتہ، العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے انہیں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، تمام جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔

العزیزیہ ریفرنس ہائیکورٹ میں

العزیزیہ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کے خلاف یکم جنوری 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ غلط فہمی اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ نواز شریف سزا کے خلاف اپنے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے اپیل دائر کی تھی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ غلط فہمی اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ دستیاب شواہد کو درست انداز میں نہیں پڑھا گیا۔ ملزم کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کو احتساب عدالت نے سنے بغیر فیصلہ سنایا۔ احتساب عدالت کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہے۔ احتساب عدالت کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔ اس لیے فیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔ اپیل پر فیصلے تک نواز شریف کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہا کیا جائے۔

21 جنوری کو عدالت نے نیب اور دیگر حکام کو نوٹسز جاری کیے، 25 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر انہیں ضمانت دینے سے انکار کردیا جس پر 11 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اور 26 مارچ کو عدالت نے ان کی چھ ہفتوں کے لیے طبی ضمانت منظور کرلی جس دوران انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ تھی۔

اس کے بعد اس ضمانت میں توسیع نہ ہونے پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس معاملہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے جہاں 20 مئی کو دائر ہونے والی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست 20 جون کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسترد کر دی۔

ویڈیو اسیکنڈل

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے چھ جولائی کو ایک نیوز کانفرنس میں العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی۔

اس ویڈیو میں وہ مسلم لیگ (ن) کے ناصر بٹ اور دیگر افراد سے ملاقاتیں کر رہے تھے، جبکہ ویڈیو میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک کا کہنا تھا کہ ان پر کیس میں سزا سنانے کے حوالے سے دباؤ تھا۔

ویڈیو سامنے آنے کے بعد جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے ایک بیانِ حلفی میں الزام عائد کیا ہے کہ انہیں بلیک میل کیا گیا تھا اور 16 سال پرانی ایک ویڈیو کی بنا پر ان کی نواز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کرائی گئی۔

جج ارشد ملک نے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف کے صاحب زادے حسین نواز نے مدینہ میں ملاقات میں انہیں 50 کروڑ روپے اور بیرونِ ملک اہل خانہ سمیت سیٹل کرانے کی پیشکش کی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سلسلہ میں دائر ہونے والی درخواستوں کو یکجا کرکے سنا اور 23 اگست کو اس حوالے سے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی اُن کے خلاف فرد جرم ہے۔

اس کیس میں جج ارشد ملک کے مس کنڈکٹ کو مان لیا گیا ہے اور انہیں اسلام آباد سے لاہور ہائی کورٹ بھجوانے کا حکم اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم بھی جاری کر دیا گیا جس پر انہیں لاہور ہائیکورٹ بھجوا دیا گیا اور اب انہیں او ایس ڈی بھی بنا دیا گیا ہے۔

یہ ویڈیو اسکینڈل سپریم کورٹ کے فیصلہ سے پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر نواز شریف کی زیر سماعت اپیل کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے اور اب جج ارشد ملک کے خلاف عدالتی فیصلہ کے بعد اس اپیل پر یہ ویڈیو اثر انداز ہوسکتی ہے۔

ویڈیو اسکینڈل میں ویڈیوز کی فارنزک

سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک ویڈیو کیس کے دوران ایف آئی اے نے اس ویڈیو کی فارنزک نہ کروانے کا بتایا جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار بھی کیا۔

لیکن اب اس میں نیا موڑ آیا ہے جس میں اس ویڈیو اسیکنڈل کے اہم کردار ناصر بٹ نے لندن میں برطانوی ڈیجیٹل فارنزک آرگنائزیشن سے ان ویڈیوز کی تصدیق کروا لی اور اس کے بعد لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن لیکر ان ویڈیوز کو پہنچ گئے اور تصدیقی رپورٹ جمع کروانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق برطانوی ادارے نے اپنی رپورٹ میں ان ویڈیوز پر کسی قسم کا وائس اوور نہ ہونے کی تصدیق کی ہے اور مصدقہ رپورٹ بھی دی ہے۔ لیکن پاکستانی ہائی کمیشن ان دستاویزات کی تصدیق نہیں کر رہا جو وہ عدالت کو بھجوانا چاہتے ہیں۔

ناصر بٹ ہی وہ کردار تھے جن کی جج ارشد ملک سے ملاقاتیں ہوتی رہیں اور ان کے ساتھ موجود ان کا ساتھی ارشد ملک کی ویڈیوز بناتے رہے جس کے بعد وہ انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھجوانا چاہتے ہیں۔

اس کیس کی سماعت آج دوبارہ ہونے والی ہے جس میں ان نئے شواہد کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس ویڈیو کو سچ مان لیا جائے تو نواز شریف کے خلاف جج ارشد ملک کا فیصلہ برقرار رکھنا ایک مشکل امر ہوگا۔

XS
SM
MD
LG