پاکستان کے ایک وفاقی وزیر اکرم خان درانی پر جمعرات کو ایک بم حملہ ہوا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے قافلے میں شامل دو افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے۔
مقامی پولیس کے مطابق وفاقی وزیر بنوں کے علاقے میں بکا خیل سے واپس آ رہے تھے کہ نرمی خیل کے علاقے میں نامعلوم حملہ آوروں نے ان کے قافلے کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا۔
دھماکے سے دو افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ تین زخمیوں کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
اکرم درانی کا تعلق جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ سے ہے اور ان کے پاس ہاؤسنگ کی وزارت کا قلمدان ہے۔ وہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
اکرم درانی پر اس نویت کا یہ پہلا حملہ تھا لیکن ان کی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر حالیہ برسوں میں تین مرتبہ خودکش حملے ہو چکے ہیں جس میں وہ محفوظ رہے۔
تاحال اس واقعے کی ذمہ داری کسی فرد یا گروہ نے قبول نہیں کی لیکن شمال مغربی صوبے میں اس سے قبل بھی ہونے والے ایسے حملوں میں کالعدم تحریک طالبان اور اس سے منسلک دیگر شدت پسند گروہ ملوث رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف نے اکرم درانی پر ہونے والے بم حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کو ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا رہا ہے جس میں اب تک سیاسی رہنماؤں، کارکنوں، سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں سمیت 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رواں سال اگست میں ہی خیبرپختونخواہ سے ملحقہ پنجاب کے ضلع اٹک میں شدت پسندوں نے خودکش حملہ کر کے صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ تین سال قبل پشاور میں ہونے والے ایک خود کش بم دھماکے میں سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور جان کی بازی ہار گئے تھے۔
گزشتہ سال سے شدت پسندوں کے خلاف جاری سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال میں ماضی کی نسبت بہتری آئی ہے لیکن اب بھی دہشت گردی کے اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جنہیں حکام عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے واقعات سے انسداد دہشت گردی کی کوششیں متاثر نہیں ہوں گی اور ملک سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔