پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر افغان حدود کی جانب ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں کم از کم نو مشتبہ دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔
اطلاعات کے مطابق یہ میزائل حملہ افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں کیا گیا اور اس کا ہدفپاکستانی طالبان سے وابستہ ایک گروپ شدت پسند تنظیم لشکر اسلام کے جنگجو تھے۔
حال ہی میں لشکر اسلام نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔
لیکن فوری طور پر اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ کیوں کہ جس علاقے میں یہ میزائل حملہ کیا گیا وہاں تک میڈیا کو رسائی نہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب ایک مبینہ ڈرون حملے میں اہم طالبان کمانڈر دو دیگر ساتھیوں سمیت مارا گیا۔
طالبان نے ہلاک ہونے والے کمانڈر کا نام خاورے محسود بتایا تھا جو کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کا قریبی ساتھی اور ذاتی محافظ تھا۔
پاکستان کی طرف سرکاری طور پر تازہ ڈرون حملے کی نا تو تصدیق کی گئی اور نا ہی اس بارے میں کسی طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے۔
پاکستان ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہتا آیا ہے کہ ایسے میزائل حملے اُس کی ملکی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہیں۔
امریکہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ڈرون کو ایک مؤثر ہتھیار گردانتا ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں سے کیے گئے حملوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہوں اور اہم کمانڈروں سمیت القاعدہ اور دیگر کئی شدت پسند تنظیموں کے اہم جنگجو کمانڈر بھی مارے جا چکے ہیں۔
پاکستانی فوج افغان سرحد کے قریب واقع اپنے دو قبائلی علاقوں شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔
پیر ہی کو پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا کہ خیبر ایجنسی میں اتوار کو کی گئی فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں اُس نے ایک اہم علاقے درہ مستوئل‘ پر کنڑول حاصل کر لیا ہے۔ درہ مستوئل کو شدت پسند افغانستان آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے تھے۔