امریکہ کے ایک اعلیٰ جنرل نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آئندہ کئی سالوں تک افغانستان میں امریکی دستوں اور پیسے کی ضرورت ہو گی۔
افغانستان میں امریکی اور بین لااقوامی افواج کے سبکدوش ہونے والے کمانڈر جنرل جان کیمبل نے ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروز کمیٹی کو بتایا کہ "اب، پہلے سے کہیں زیادہ (اس امر کی ضرورت ہے کہ) امریکہ افغانستان سے توجہ نہ ہٹائے"۔
"اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم رک سکتے ہیں اور یہ (معاملہ) ختم ہو جائے گا یا لوگ یورپ یا یہاں ہمارے ملک پر حملے کرنے کی کوشش جاری نہیں رکھیں گے تو پھر ہم بہت سادہ ہیں۔ ہم اپنے ساتھ مذاق کر رہے ہیں"۔
جنرل کیمبل کی طرف سے یہ انتباہ ان کے ممکنہ جانشین لیفٹینٹ جنرل مک نکولسن کے سینیٹ کے قانون سازوں کے سامنے دیے گئے بیان کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپ افغانستان کو اپنے لیے ایک اچھی کمین گاہ سمجھتے ہیں اور انہوں نے بھی اس بارے میں متنبہ کرتے ہوئے امریکہ کو جارحانہ طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
افغانستان میں انسداد دہشت گردی اور افغان سکیورٹی فورسز کی مشاورت کے لیے اس وقت 9,800 امریکی فوجی تعینات ہیں اور متوقع طور اس سال کے اواخر میں یہ تعداد کم ہوکر 5,500 رہ جائے گی جبکہ نیٹو اتحادیوں کے 6,000 دستے اس کے علاوہ ہیں۔
کیمبل نے امریکی صدر براک اوباما کی افغانستان میں امریکی دستوں کی تعداد کو تقریباً 1,000 تک کم کرنے کے منصوبے کو ختم کرنے کی تعریف کی جن کو صرف کابل میں تعنیات کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ (صورت حال) بتدریج بہتری کے باوجود افغان سکیورٹی فورسز اور افغان نینشل آرمی کو کئی معاملات، جیسا کہ فضائی صلاحیت اور فوجی قیادت کے بھی مسائل کا سامنا ہے۔
امریکہ فوجی عہدیدار اس سے پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ 2015 میں افغان فورسز کو ملی جلی کامیابیاں ملیں جن میں زیادہ تر لڑائی انھوں نے خود لڑی۔ ان میں انہیں طالبان کا سامنا تھا اور اس میں ان کے جانی نقصان میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔
تاہم امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ موسم سرما میں لڑائی جاری رکھنے کے باوجود طالبان کئی علاقوں پر اپنے قبضے کو برقرار نا رکھ سکے۔