رسائی کے لنکس

افغان حکومت کا طالبان قیدی رہا کرنے کا عندیہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے عندیہ دیا ہے کہ وہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

اس بات کا اشارہ افغانستان کے نائب صدر محمد سرور دانش نے جمعے کو کابل میں ہونے والی ایک تقریب میں گفتگو کے دوران کیا۔

نائب صدر محمد سرور دانش نے کہا کہ ان کی حکومت طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن ان شرائط پر جو ملک کے آئینی تقاضوں کے مطابق ہوں۔

سرور دانش کے بقول افغان امن مذاکرات کے لیے سب سے پہلے اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔

نائب صدر نے کہا کہ ان کی حکومت پرتشدد واقعات میں کمی لانا اور سیز فائر کرنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے خواہاں ہیں۔

البتہ نائب صدر نے امن معاہدے پر پیش رفت کے لیے کسی عبوری حکومت کے قیام کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 28 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت جلد اپنے فرائض سنبھال لے گی۔

انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ کو تسلیم کرتے ہوئے افغان نائب صدر نے کہا کہ اس سے انتخابات کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پاکستانی فوج کی دراندازی کی رپورٹس مسترد

دوسری جانب افغانستان کے صوبے پکتیکا کے گورنر مجیب الرحمٰن سمکانی نے پاکستانی فوج کی افغانستان میں دراندازی سے متعلق میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان کے کچھ مقامی ذرائع ابلاغ کے اداروں نے خبر دی تھی کہ پکتیکا صوبے کے رہائشی کچھ افراد نے بتایا ہے کہ جمعے کو پاکستان کے نیم فوجی دستوں نے گومل ضلع کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں باڑ لگانا شروع کر دی ہے۔

گورنر مجیب الرحمٰن نے پکتیکا کے صوبائی دارالحکومت شارن میں ایک نیوز کانفرنس کی جس میں انہوں نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر لمبی سرحد ہے جسے ’ڈیورنڈ لائن‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے 2017 سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔

پاکستانی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ باڑ لگانے کا کام 2020 میں مکمل کرلیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG