رسائی کے لنکس

افغان سفیر کی پاکستانی حکام سے ’تعمیری بات چیت‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان نے اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد نا صرف افغانستان سے اپنی سرحد ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے بند کر دی بلکہ سکیورٹی کے انتظامات بھی مزید بڑھا دیئے گئے۔

پاکستان میں افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں پائی جانے والی حالیہ کشیدگی میں کمی کی توقع کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ ملک میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان میں روپوش ’دہشت گردوں‘ سے متعلق ایک فہرست افغان عہدیداروں کو فراہم کرتے ہوئے، اُن شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کے جواب میں پیر کی شب افغان وزارت خارجہ نے بھی پاکستان میں موجود افغان شدت پسندوں اور اُن کے مبینہ ٹھکانوں سے متعلق ایک فہرست پاکستان کو فراہم کی۔

افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال نے ایک بیان میں کہا کہ اُنھوں نے پیر کو دستاویزات پاکستانی وزارت خارجہ اور فوج کے صدر دفتر ’جی ایچ کیو‘ کو پہنچا دی ہیں۔

سفیر عمر زخیلوال کے مطابق اُن کی پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اور ’جی ایچ کیو‘ میں تعمیری بات چیت ہوئی۔

اُنھوں نے پاکستانی عہدیداروں سے بات چیت کے بعد اس توقع کا اظہار کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں جلد کمی کے ساتھ ساتھ، ایسا مثبت ماحول بھی پیدا ہو جس میں تعاون کے انداز میں ایک دوسرے کے تحفظات کا جواب دیا جا سکے۔

افغان سفیر کے بیان میں کہا گیا کہ ہم نے آگے بڑھنے کے ایک راستے پر اتفاق کیا ہے، تاہم اُنھوں نے اپنے بیان میں اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

پاکستان نے اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد نا صرف افغانستان سے اپنی سرحد ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے بند کر دی تھی بلکہ سکیورٹی کے انتظامات بھی مزید بڑھا دیئے گئے ہیں۔

سرکاری میڈیا کے مطابق پیر کو پاکستان نے مزید بھاری توپ خانہ بھی افغان سرحد کے قریب اپنے علاقوں میں پہنچا دیا۔

اُدھر اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیر کو پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں بتایا کہ سرحد پار افغانستان میں بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فورسز کارروائی کر سکتی ہیں۔

تاہم اجلاس میں موجود پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے منگل کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسحاق ڈار نے ایوان کو یہ بتایا تھا کہ ایسی کارروائیاں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون سے کی جائیں گی۔

’’وہ (اسحاق ڈار) یہ کہہ رہے تھے ہمیں یہ مل جل کرنا ہے، ہم سرحد کی اس طرف بھی (شدت پسندوں کے خلاف کارروائی) کریں گے اور اُس طرف بھی کریں گے۔۔۔۔۔ افغانستان میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں افغان حکومت کارروائی نہیں کر سکتی، مطلب اُن کی عمل داری وہاں نہیں ہے۔ لیکن اگر تعاون ہو گا تو ہم مل کر ایسی (کارروائیاں) کر سکتے ہیں۔‘‘

تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ ایسی باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ اگر افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو پاکستان یکطرفہ طور پر سرحد پار شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

’’یہ جو سرحد پار کارروائی کی بات کی جا رہی ہے، لیکن اس سے یہ ہو گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد مزید بڑھ جائے گا اور افغانستان بھی اس معاملے کو اٹھائے گا کہ اُس کی سرحدی خود مختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘‘

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پیر کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا تھا کہ افغانستان سے ملحقہ سرحد پر سکیورٹی بڑھانے کا مقصد مشترکہ دشمن سے لڑنا ہے۔

XS
SM
MD
LG