رسائی کے لنکس

جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی- عشروں کے دوران


فاعتیمہ ریحان اپنے 2 سالہ بیٹے محمد کو اٹھائے ہوئے جب وہ اور خاندان کے دیگر افراد جبلیہ، غزہ کی پٹی میں، بدھ، 5 فروری، 2025 کو حماس کے خلاف اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائی سے تباہ ہونے والے اپنے گھر
کے ملبےکو چھان رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
فاعتیمہ ریحان اپنے 2 سالہ بیٹے محمد کو اٹھائے ہوئے جب وہ اور خاندان کے دیگر افراد جبلیہ، غزہ کی پٹی میں، بدھ، 5 فروری، 2025 کو حماس کے خلاف اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائی سے تباہ ہونے والے اپنے گھر کے ملبےکو چھان رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
  • حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ کی جنگ سے تباہ ہونے والی غزہ کی پٹی 2007 سے اسرائیلی ناکہ بندی کے تحت ایک فلسطینی علاقہ ہے۔
  • فلسطینی مردم شماری کے مرکزی ادارے کے مطابق غزہ میں 47 فیصد افراد کی عمر 18 سال سے کم ہے اور صرف 4.8 فیصد کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے۔
  • مصر کی سرحد کے ساتھ غزہ میں داخلے کا واحد راستہ جس پرجنگ سے پہلے اسرائیل کا کنٹرول نہیں تھا ، رفح کراسنگ کہلاتا ہے۔
  • غزہ کی 69فیصد سے زیادہ عمارتیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ اور ان میں کم از کم 2 لاکھ ,45 ہزار گھر شامل ہیں۔ اقوام متحدہ

حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ کی جنگ سے تباہ ہونے والی غزہ کی پٹی 2007 سے اسرائیلی ناکہ بندی کے تحت ایک فلسطینی علاقہ ہے۔ موجودہ جنگ بندی کسی پائیدار امن کی ضمانت نہیں دیتی۔اسی طرح علاقے کی مستقبل کی حکمرانی کے بارے میں اور بھی کم وضاحت ہے۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے لیے جنگ کے بعد کوئی کردار نہیں ہو سکتا ، جس نے 2007 سے غزہ پر حکمرانی کی ہے اور سات اکتوبر 2007 کو اسرائیل پر اپنے دہشت گرد حملے سےاس تباہ کن جنگ کو جنم دیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں غزہ کی تباہ حالی کی بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں کے دوران غزہ کے رہنے والے ایسی ہی صعوبتوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے اسے امریکہ کے کنٹرول میں دینے کی تجویز پیش کی ۔ جمعرات کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے غزہ کی تعمیرِ نو سے متعلق کہا کہ اس کے لیے کسی امریکی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور خطے میں استحکام کا دور دورہ ہو گا۔

بحیرہ روم کے ساؒحل پر واقع خشکی کی اس ُپٹی پر اس وقت دنیا کی توجہ مرکوز ہے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں غزہ کے بارے میں کچھ حقائق پر:

بحیرہ روم کے ساحل پر ایک چھوٹی سی زمینی پٹی

غزہ میں دیرالبلاح کا ساحلی علاقہ۔ اے پی
غزہ میں دیرالبلاح کا ساحلی علاقہ۔ اے پی

غزہ 365 مربع کلومیٹر (140 مربع میل) کی زمین کی ایک چھوٹی سی پٹی ہے جو 24 لاکھ لوگوں کا گھر ہے۔جس کی سرحد مشرق اور شمال میں اسرائیل سے اور جنوب میں مصر کےساتھ ملحق ہے جب کہ اس کےمغربی ساحل پر بحیرہ روم ہے ۔

عرب اسرائیل کے درمیان 1948 – 1949 کی جنگ کے بعد جس کے نتیجے میں اسرائیل وجود میں آیا ، غزہ کو مصرکی انتظامیہ کےتحت کر دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے UNRWA کے مطابق، غزہ کے زیادہ تر فلسطینیوں کے آباؤ اجداد عرب اسرائیل جنگ کے دوران اپنے گھروں سےفرار ہوگئے تھے۔

اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ پر قبضہ کیا تھا اور اسے 2005 میں اس وقت مکمل طور پر فلسطینیوں کو واپس کیا گیا جب اسرائیل نے فوجیوں اور آباد کاروں کو وہاں سے واپس بلا لیا۔

غزہ: بیشتر آبادی شہری اور نوجوان:

فلسطینی مردم شماری کے مرکزی ادارے کے مطابق غزہ کی آبادی جوان افراد پر مشتمل ہے جس میں 47 فیصد افراد کی عمر 18 سال سے کم ہے اور صرف 4.8 فیصد کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہے ۔ بڑی شرح پیدائش کی وجہ سے آبادی میں ہر سال 2.7 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

جنگ سے پہلے تین چوتھائی آبادی شہری علاقے میں رہتی تھی ، سی آئی اے کے مطابق، غزہ شہر میں 7 لاکھ 78 ہزار افراد رہتےتھے۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ 90 فیصد فلسطینی جنگ کے دوران کم از کم ایک بار بے گھر ہوئےہیں اور جنگ بندی کے بعد گھروں کو لوٹنے والے بہت سے لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات کے قریب خیموں میں رہ رہے ہیں۔

ناکہ بندی

یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں امداد کی صورتحال
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:16 0:00

اسرائیل نے 2007 میں اس وقت غزہ کی فضائی ، زمینی اور سمندری ناکہ بندی کر دی جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا ،جسے اسرائیل، امریکہ اور یورپی یونین ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں ۔

اس کے بعد اسرائیل نے 9 اکتوبر 2023 کے بعد اس علاقے کی مکمل طور پر ناکہ بندی کر دی ، پانی، بجلی اور خوراک کی سپلائی بند کر دی کبھی امداد کے داخلے کو سخت کیا ، کبھی ڈھیل دی۔ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے مطابق تباہ حال غزہ میں انسانی امداد کے ٹرکوں کی آمد میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

مصر کی سرحد کے ساتھ غزہ میں داخلے کا واحد راستہ جس پرجنگ سے پہلے اسرائیل کا کنٹرول نہیں تھا ، رفح کراسنگ کہلاتا ہے۔ مئی 2023 میں اس پر اسرائیل کے قبضے کے بعد اسے بند کردیا گیا۔ جنگ بندی کے نئے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر اسرائیل کی شرائط کے ساتھ اسے یکم فروری2025 کو دوبارہ کھولا گیا۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی صورتحال "تباہ کن" ہے۔UNRWA کے مطابق، جنگ سے پہلے بھی غزہ کی آبادی کاایک بڑا حصہ غربت میں رہتا تھا۔تقریباً نصف آبادی بے روزگار تھی (46.6 فیصد)۔ اس کا تناسب نوجوانوں میں زیادہ تھا- 15 سے 29 سال کی عمر کے 62.3 فیصد افرادبے روزگار تھے۔

2008 سے حالیہ پانچویں جنگ تک:

کیا ایران نے اسرائیل پر حملے میں حماس کی مدد کی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:22 0:00

2008 سے غزہ میں فلسطینی جنگجوؤں اور اسرائیل کے درمیان یہ پانچویں جنگ ہے۔ 2008, 2012, 2014 اور 2021 کی جنگوں میں اسرائیل نے غزہ پر تباہ کن بمباری کی جبکہ دوسری جانب سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کی گئی۔

سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے جنوب میں دہشت گرد حملہ کیا جس میں اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بارہ سو کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوگئے۔اور ڈھائی سو کو یرغمال بنایا گیا۔اس حملے کے بعد اسرائیل نے اپنی جوابی کارروائی میں غزہ پر مسلسل فضائی حملے کیے۔

اسرائیل کا وہ مقام جہاں سات اکتوبر کو سب سے زیادہ لوگ مارے گئے
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:11 0:00

تب سے حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 47,552 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اور یہ اب تک کی سب سے زیادہ تباہ کن جنگ ہے۔

بڑے پیمانے پر تباہی

اقوامِ متحدہ کے ادارے UNOSAT کے مطابق، بلا دریغ بمباری اور گولہ باری سے غزہ میں اتنی تباہی ہوئی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس علاقے کی 69فیصد سے زیادہ عمارتیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ اور ان میں کم از کم 2 لاکھ ,45 ہزار گھر شامل ہیں۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG