- چین کی مدد سے کئی ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی گئی گوادر بندر گاہ چین پاکستان اقتصادی راہداری، سی پیک، کا ایک اہم منصوبہ ہے۔
- بلوچستان حالیہ سالوں میں عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور چین کی مدد سے بنائے گئے منصوبے اکثر علیحدگی پسندوں کے حملوں کے ہدف بنتے رہے ہیں۔
- ایئر پورٹ ابھی فعال نہیں ہوا لیکن یہ فعال ہونے کے لیے تیار ہے۔
- دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات عسکریت پسندوں کے سی پیک منصوبوں پر حملوں سے متاثر ہو ئے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں ایسے حملوں میں بیس چینی شہری ہلاک ہو ئے ہیں۔
- چینی وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایئر پورٹ محض کوئی انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کی علامت ہے۔
چین کے وزیر اعظم لی کیانگ نے بیجنگ کے مالی تعاون سے بنائے گئے گوادر ایر پورٹ کا، تقریباً دو ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک تقریب میں پیرکو ور چوئل افتتاح کیا۔
ایئر پورٹ گوادر کی بندر گاہ کے قریب واقع ہے۔ بلوچستان حالیہ سالوں میں عدم استحکام کا شکار رہا ہے اور چین کی مدد سے بنائے گئے منصوبے اکثر علیحدگی پسندوں کے حملوں کے ہدف بنتے رہے ہیں۔
چین کی مدد سے کئی ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی گئی گوادر بندر گاہ چین پاکستان اقتصادی راہداری، سی پیک، کا ایک اہم منصوبہ ہے۔
یہ بندر گاہ چین کے سنکیانگ صوبے کو پاکستان کے بحیرہ عرب کے کنارے پر واقع جنوب مغربی ساحل تک رسائی دیتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک اہلکار کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایر پورٹ ابھی فعال نہیں ہوا لیکن یہ فعال ہونے کے لیے تیار ہے۔
پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق چینی وزیر اعظم نے افتتاحی تقریب کے موقع پر کہا کہ گوادر ایر پورٹ کی تعمیر خطے کو جوڑنے کی جانب ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس منصوبے کے آغاز پر چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا نے بتایا تھا کہ 23 کروڑ ڈالر مالیت کے اس منصوبے کے لیے فنڈنگ چین پاکستان اْقتصادی راہداری یا سی پیک نے فراہم کی ہے۔
سنہوا کے مطابق اپنے 18 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ یہ پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا ایر پورٹ ہوگا۔
لی کیانگ نے، جو پاکستان میں شنگھائی کوآپریشن آرگینائزیشن کے اجلاس میں چین کی نمائندگی کررہے ہیں، ایر پورٹ کے عالمی معیار کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ ایر پورٹ کی تکمیل بین الاقو امی تجارت کو فروغ دے گی اور اس کے ذریعہ پاکستان کے مغربی علاقوں، بالخصوص گوادر، کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو گا۔
وزیر اعظم نے ایرپورٹ کے تعمیر میں شامل چینی اور پاکستانی کارکنوں کی تعریف کی، اور کہا کہ پاکستان کی ترقی چین کی اہم ترجیح ہے۔
ان کے الفاظ میں "یہ ایئر پورٹ محض کوئی انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ نہیں ہے۔ یہ ہمارے دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعاون کی علامت ہے۔"
لی کیانگ نے کہا کہ چین اور پاکستان باہمی ترقی کے لیے مل جل کر کام کرتے رہیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اشتراک زیادہ مضبوط ہو گا۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایئر پورٹ کو چین کی طرف سے ان کے ملک کے لیے ایک تحفہ قرار دیا اور اس کے لیے انہوں نے بیجنگ کا شکر یہ ادا کیا۔
چین کا شمار اقتصادی مسائل میں گھرے پاکستان کی مالی مدد کرنے والے سب سے زیادہ قابل اعتماد شراکت داروں میں ہوتا ہے۔
لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات عسکریت پسندوں کے سی پیک منصوبوں پر حملوں سے متاثر ہو ئے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں ایسے حملوں میں بیس چینی شہری ہلاک ہو ئے ہیں۔
رواں ماہ کراچی میں چینی انجنیئر و ں کے ایک قافلے پر حملے میں چین کے دو شہری ہلاک ہوئے تھے۔
بلوچ عسکریت پسندوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان نے خطے کی دولت باہر کے لوگوں کے سپرد کردی ہے۔
ایر پورٹ کی افتتاحی تقریب کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ اور امن کے فروغ کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
سی پیک منصوبہ
وائس آف امریکہ نے گزشتہ برس سی پیک کے دس برس مکمل ہونے پر اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھاکہ ملٹی بلین ڈالر پروگرام چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) 2013 میں متعارف کرایا گیا تھا اور اسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا BRI کی فلیگ شپ توسیع کا نام دیا گیا تھا - اس توقع کے ساتھ کہ یہ منصوبہ پاکستان کو اقتصادی رابطے کے لیے ایک علاقائی مرکز میں بدل دے گا۔
پاکستانی حکام کا کہناتھا کہ اس منصوبے کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ براہِ راست مقامی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں جب کہ 1,400 کلومیٹر سے زیادہ شاہراہیں اور سڑکیں بنائی گئیں اور آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی گئی۔
حکام کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت لگائے گئے بجلی کے منصوبوں سے لگ بھگ 23 کروڑ آبادی والے ملک میں بجلی کی بندش کی وجہ سے برسوں کے بلیک آؤٹ کا خاتمہ ہوا ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور قرضوں کی ادائیگی پر اختلافات مشترکہ بنیادی ڈھانچے کی پیش رفت میں رکاوٹ ہیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کی معاشی مشکلات مزید گہری ہوئی ہیں، کچھ ناقدین سی پیک کی سرمایہ کاری کواس میں ا اہم کردار ادا کرنے والے عنصر کے طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے تین ارب ڈالر کے قلیل مدتی آئی ایم ایف بیل آؤٹ معاہدے کے حصول سے فوری ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا، جو اس ماہ کے آخر میں فنڈ کے بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل کا خیال ہے کہ سی پیک کے بارے میں بہت زیادہ تشہیر کی گئی ہےتاہم وہ اپنے’دھوم دھڑکے‘ پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کو اپنے تحریری بیان میں کوگل مین نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان پر اقتصادی دباؤ اور چین کے سیکیورٹی خدشات کے امتزاج نےسی پیک کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ دونوں دارالحکومتوں کی جانب سے بیانات میں مسلسل اضافے کےباوجود کاریڈور کی پیشرفت کو بڑا دھچکا پہنچا ہے۔
اس خبر میں شامل کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم