رسائی کے لنکس

کشیدگی میں اضافےکے باوجود اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سفارتی حل ہو سکتا ہے، وائٹ ہاؤس


 امریکی صدر جو بائیڈن وانشنگٹن میں 19 ستمبر 2024 کو اکنامک کلب آف واشنگٹن سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز
امریکی صدر جو بائیڈن وانشنگٹن میں 19 ستمبر 2024 کو اکنامک کلب آف واشنگٹن سے خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز

صدر جو بائیڈن کا خیال ہے کہ پیجر اور واکی ٹاکی بم دھماکوں کے ایک سلسلے کے بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں اضافے کےباوجود اب بھی کوئی سفارتی حل ہو سکتا ہے، امریکی صدرکی ترجمان نے جمعرات کو کہا۔

لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی میں اس وقت شدید اضافہ ہوگیا جب لبنان کے مختلف شہروں میں پیجر ڈیوائسز میں ایک ساتھ دھماکے ہوئے جن کے نتیجے میں حزب اللہ کے جنگجوؤں اور بیروت میں موجود ایرانی سفیر سمیت لگ بھگ تین ہزار افراد زخمی ہوگئے تھے۔

"صدر کا خیال ہے کہ یہ قابل حصول ہے،" پریس سکریٹری جین پیئر نے ایک بریفنگ میں بتایا۔ "صدر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں پر امید رہنا ہوگا اور سفارتی حل بہترین طریقہ ہے۔"

حزب اللہ نے پیجرز کے منگل کو ہونے والے ہلاکت خیز دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اسرائیل کو ان دھماکوں کی سزا دی جائے گی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق لبنان کے سیکیورٹی ذرائع سمیت دیگر ذریعے نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے حزب اللہ کے لیے لبنان درآمد ہونے والے پانچ ہزار پیجرز میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اسرائیل نے منگل کو آپریشن مکمل ہونے کے بعد امریکہ کو اس پر بریفنگ دی۔ اس آپریشن کے دوران پیجرز میں دھماکہ خیز مواد کی معمولی سی مقدار کے ذریعے دھماکے کیے گئے تھے۔

اسکے بعد بدھ کو واکی ٹاکیز کے پھٹنے کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک اور لگ بھگ 450 زخمی ہو گئے۔

حزبِ اللہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ بدھ کو دارالحکومت بیروت سمیت دیگر شہروں میں گروپ کے زیرِ استعمال کئی واکی ٹاکیز میں دھماکے ہوئے ہیں۔

لبنان کی سرکاری نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا ہے کہ دارالحکومت بیروت اور جنوبی لبنان میں کئی گھروں پر نصب سولر سسٹم بھی پھٹ گئے ہیں۔

امریکی کوششیں

اس سے قبل امریکہ نے جمعرات کو کہا کہ وہ اب بھی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے ایک تاریخی معاہدے کے لیے کام کر رہا ہے جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر ثابت قدم نظر آتے ہیں۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدھ کو کہا کہ سعودی عرب "ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کرے گا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ سلطنت ایسی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گی ۔‘‘

محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کو بتایا کہ "ہر دن جو گزرتا ہے، اس میں کسی بھی مقصد کاحصول مشکل تر ہو جاتا ہے ۔ یہ وقت کی ایک حقیقت ہے۔"

امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو کہا تھا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ آیا اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے سمجھوتہ کرنے پر تیار ہے، خاص طور پر جب اس کا تعلق فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کرنے سے ہو۔

ان کی جانب سے یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس تاریخی معاہدے کے ممکنہ پہلوؤں سے آگاہ کیا۔

لیکن بلنکن نے، جو 7 اکتوبر کے اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان کئی باردورہ چکے ہیں، ان شکوک و شہبات سے اتفاق کیا کہ اگر تعلقات معمول پر لانے کے معاملات مفروضے کی سطح سے آگے بڑھتے ہیں تو کیا نیتن یاہو اور ان کی کٹڑ دائیں بازو کی حکومت سعودی مطالبوں پر پورا اتر سکے گی۔

وزیر خارجہ بلنکن نے سینیٹ کی ایک کمیٹی میں کہا کہ میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ اسرائیل، چاہے وہ وزیر اعظم ہو ں یا مجموعی طور پر ایک ملک ہو، اس وقت وہ کچھ کرنے پر تیار ہے جو درحقیقت تعلقات معمول پر لانے کے لیے ضروری ہو گا۔

اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیاہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG