رسائی کے لنکس

حکومت کو خطرہ ہے تو وزیرِ اعظم اسمبلی تحلیل اور نئے انتخابات کی تجویز دیں: پیپلز پارٹی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری کے مطابق وفاقی وزرا اگر سمجھتے ہیں کہ انہیں خطرہ ہے تو وہ ان سے معلومات کا تبادلہ کریں۔
  • نیئر بخاری کے مطابق نظام کا انحصار موجودہ حکمرانوں اور ایک جماعت پر ہے۔
  • ان کے بقول صدر آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ آؤ بیٹھ کر بات کریں۔ لیکن کوئی تیار نہیں۔
  • پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ حکومت گرنے کے دہانے پر آ جاتی ہے تو پھر کیا حل ہے؟
  • نیئر بخاری کے مطابق عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔

ویب ڈیسک — پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری نے کہا ہے کہ اگر حکومت کو خطرہ لگ رہا ہے تو وزیرِ اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کو توڑنے کی تجویز صدر کو دیں اور نئے انتخابات کرا لیں۔

نجی نشریاتی ادارے 'اے آر وائی نیوز' سے گفتگو میں نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ قابل اعتبار شخص نہیں ہیں۔ ان کی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔

نیئر بخاری نے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزرا اگر سمجھتے ہیں کہ انہیں خطرہ ہے تو وہ ان سے معلومات کا تبادلہ کریں۔ نظام کا انحصار موجودہ حکمرانوں اور ایک جماعت پر ہے۔ صدر زرداری کہہ رہے ہیں کہ آؤ بیٹھ کر بات کریں۔ لیکن کوئی تیار نہیں۔

خیال رہے کہ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ انہیں لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی آئینی ٹوٹ پھوٹ ہونے والی ہے۔ ملک میں الیکشن منسوخ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسی کسی بھی صورت حال کا دفاع کریں گے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری کا مزید کہنا تھا کہ اگر نظام عدم استحکام کا شکار ہوا تو نقصان ملک کا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت سے کہا ہے کہ انہیں اسمبلی میں جو بھی حمایت چاہیے وہ انہیں فراہم کی جائے گی۔ البتہ حکومت ڈیلیور بھی کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ حکومت ٹوٹنے کے دہانے پر آ جاتی ہے تو پھر کیا حل ہے؟ اسٹیبلشمنٹ بھی ویسے ہی تو نہیں چڑھ دوڑے گی۔ اس کی بھی کچھ وجوہات ہونی چاہیئں۔

ان کے بقول جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کی حکومت کو ختم کیا تو اس کی کچھ وجوہات تھیں یا ان کی اپنی عقل کے مطابق کچھ عوامل تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جب ہٹایا گیا تو وہ ایک بین الاقوامی سازش تھی۔ ابھی صدر زرداری کہہ رہے ہیں کہ بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور وہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے بقول کوئی بیٹھنے کو تیار تو ہو۔

نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ قابل اعتبار نہیں۔ وہ بات کر کے اس پر قائم نہیں رہتے۔ وہ ایک لمحے ایک بات کرتے ہیں اور دوسرے لمحے دوسری بات۔ ایک دن وہ کہتے ہیں محمود خان اچکزائی کو اختیار دیا اور دوسرے دن کہتے ہیں کہ انہیں اختیار نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گفتگو ان سے ہوتی ہے جس پر اعتماد ہو کہ وہ یہ بات کرے گا تو اس پر کھڑا رہے گا۔

ان کے بقول پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ آئین بالا دست ہے اور حل آئین کے مطابق بیٹھ کر نکالنا ہے ورنہ اگر سسٹم ڈی ریل ہو گیا تو شاید کسی ایک فائدہ ہو جائے اور کسی دوسرے کا نقصان ہو جائے لیکن بالآخر نقصان ملک کا ہی ہو گا۔

نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ آٹھ فروری کے انتخابات پر سوالیہ نشانات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سے قبل پارٹی کا فیصلہ تھا کہ بلاول بھٹو زرداری وزیرِ اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ لیکن جب نتائج آئے تو ہم نے کہا کہ نظام چلنا چاہیے اور ہم نے کہا کہ ہم وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار نہیں۔ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی دونوں جماعتیں اس کی حق دار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کو پیش کش کی لیکن اس نے نہ مانی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ نواز لیگ کے ساتھ نہ ملتے تو کیا آج قومی اسمبلی چل سکتی تھی؟

نیئر بخاری کے بقول پیپلز پارٹی کو بھی انتخابات پر تحفظات ہیں اور بائی ڈیزائن پیپلز پارٹی کو کچھ نشستیں نہیں ملیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی دیکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سامنے آ کر کام کرتی ہے۔ کبھی اس کا ثبوت ملا اور اگر ثبوت نہیں ہے تو آپ ان پر کیسے الزام لگا سکتے ہیں۔

نیئر بخاری نے کہا کہ وہ ذمہ دار الیکشن کمیشن کو سمجھتے ہیں، ان کے مطابق اس کے پیچھے کون تھاَ وہ الیکشن کمیشن ہی بتا سکتا ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کی نا اہلی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس سے متعلق سوال پر نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ وہ تو ریفرنس میں نہیں گئے جو لوگ گئے ہیں وہ ثابت کریں۔ عمران خان کو کس نے کہا تھا کہ قبل از وقت مستعفی ہو جائے اور پھر ایک موقع پر کہا کہ وہ استعفی واپس لیتے ہیں۔ وہ ایسے رہنما ہیں جن کی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔

سپریم کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا تھا۔

مبصرین کے مطابق اس فیصلے کے بعد حکومت اور عدلیہ میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG