|
کراچی — پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ ہفتے ایک ہی روز میں دو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا۔
کراچی کے علاقے کورنگی میں 15 سالہ شہزادی کو اس کے نانا محمد شریف نے گھر میں کلہاڑی سے وار کرکے قتل کردیا۔ واقعے کے بعد پولیس نے ملزم کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا۔
پولیس کے مطابق مقتولہ نے ایک سال قبل جامشورو میں اپنی مرضی سے شادی کی تھی جس کے بعد نانا اس کو منا کر کراچی واپس لائے جہاں بعد ازاں اسے قتل کر دیا گیا۔
اسی روز لانڈھی کے علاقے میں 35 سالہ خاتون دو بچوں کی ماں جنت گل کو ان کے دیور نے گولیاں مار کر قتل کیا۔
پولیس کے مطابق مقتولہ کا شوہر دبئی میں ملازمت کرتا تھا۔ واقعے کے روز بھابھی اور دیور کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی جب وہ اپنے موبائل پر کسی سے بات چیت کر رہی تھی۔ قتل کرنے کے بعد ملزم پستول سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
جولائی کے ہی مہینے میں منگھوپیر کے علاقے میں نوبیاہتا جوڑا اپنے گھر میں مردہ حالت میں پایا گیا۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اس جوڑے نے پسند کی شادی کی تھی اور یہ چھپ کر ایک گھر میں رہائش پذیر تھے۔ لیکن موت سے قبل ان کی موجودگی کی مخبری ہوئی جس پر گھر میں مسلح افراد داخل ہوئے اور لڑکی اور لڑکے کو قتل کرکے فرار ہوگئے۔ پولیس کے مطابق دہرے قتل کی یہ واردات بھی غیرت کے نام پر ہوئی۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق 2016 سے 2022 کے دوران ملک بھر کے مختلف حصوں میں 520 قتل غیرت کے نام پر کیے گئے جن میں 323 خواتین اور 197 مرد شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2023 کے آغاز سے جون تک 215 واقعات ہوئے جن میں 145 خواتین اور 70 مردوں کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
غیرت کے نام پر ہونے والے قتل یوں تو ملک بھر میں مختلف صوبوں کے دیہی علاقوں میں زیادہ رپورٹ ہوتے ہیں۔
لیکن ملک کے سب سے بڑے شہر میں ایسے قتل کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے اقلیتی حقوق مارچ کی آرگنائزر اور ریسرچر فہمیدہ ریاض کا کہنا تھا کہ کراچی جیسے شہر میں ایسے قتل کا ہونا یہ بتاتا ہے کہ ایسے بہت سے خاندان جو ملک بھر سے یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی بھلے بدلا ہو لیکن وہ اپنی روایات کے ساتھ ہی جیتے ہیں اور ان کی پسماندہ سوچ کہ عورت ان کی جاگیر ہے، شہر میں آنے کے باوجود ان کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 90 کی دہائی میں سندھی اخباروں میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی اتنی خبریں آتی تھیں کہ دل دہل جاتا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے تب سے اب تک کچھ نہیں بدلا۔
فہمیدہ ریاض کے بقول بعض علاقوں میں پسند کی شادی کرنے والے لڑکے، لڑکیاں کراچی میں یہ سوچ کر پناہ لیتے ہیں کہ وہ اس پُرہجوم شہر میں گم ہوجائیں گے۔ لیکن ان کے رشتے دار بالخصوص لڑکی کا خاندان کبھی نہ کبھی ان تک پہنچ کر انہیں نشانہ بنا دیتے ہیں۔
سندھ میں غیرت کے نام پر 123 قتل
سندھ سوہائی آرگنائزیشن نے وائس آف امریکہ سے 2023 میں جنوری سے جون تک کے دوران ہونے والے قتل کے اعداد و شمار شیئر کیے جس کے مطابق سندھ کے شہر جیکب آباد میں 12 خواتین 7 مرد، کشمور میں 11 خواتین اور پانچ مرد، شکار پور میں 10 خواتین اور دو مرد، گھوٹکی میں چھ خواتین اور ایک مرد، سکھر میں نو خواتین اور ایک مرد، خیرپور میں چار خواتین اور ایک مرد، لاڑکانہ میں چار خواتین اور ایک مرد جب کہ دادو، حیدر آباد اور کراچی میں 35 خواتین اور 14 مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
پولیس کی ایف آئی آر اور ریکارڈ کے ساتھ مرتب کیے جانے والے اس ڈیٹا کے مطابق یہ تعداد 123 بنتی ہے جن میں 91 خواتین اور 32 مرد قتل کیے گئے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ وہ اسے غیرت کے نام پر قتل نہیں مانتیں۔ اس طرح کے قتل کی اہم وجہ عورتوں سے نفرت دکھائی دیتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان قتل کی وجوہات اور اسباب بہت سے ہیں جس میں پدر شاہی ماحول کا ہونا ہے کیوں کہ اس مزاج کے مرد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عورتیں ان کی بات نہیں مان رہیں، ان پر ان کا اختیار اور طاقت نہیں چل پا رہی تو وہ اس نفرت میں ان خواتین کی جان لے لیتے ہیں۔
طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ یہ نظر آتی ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں معاشرے میں پُر تشدد رویے میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اگر صرف سوشل میڈیا کو ہی دیکھیں تو ہمارے نوجوان خصوصاً لڑکے اور مرد ایسے پُر تشدد مناظر، فلمز، ویڈیو گیمز دیکھنے کے عادی ہیں جس میں قتل و غارت عام ہے۔ جب آب یہ سب دیکھتے ہوں تو آپ اسے عام زندگی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔
ان کے بقول ان واقعات میں اضافہ اچانک نہیں ہوا۔ یہ اب تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اب چوں کہ گزشتہ 40 برسوں میں یہ تبدیلی نظر آنے لگی ہے کہ خواتین نے تعلیمی اور اقتصادی میدان میں خود کو منوانا شروع کیا ہے تو اس سے اُن خواتین کو بھی حوصلہ ملنا شروع ہوا ہے جو یہ سب کرنے کی خواہش رکھتی ہیں لیکن ان کی زندگی کے فیصلے ان کے گھر کے مردوں یا قبائل کے ہاتھ میں ہے۔
طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ایسے میں جب مردوں کو یہ محسوس ہونے لگے کہ اُن کے گھر کی خواتین اپنے حق اور اختیار کا مطالبہ کرنے لگی ہیں تو یہ مرد احساسِ کمتری اور طاقت کم یا چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہو کر اپنی عورتوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر انہیں غیرت کا نام دے کر نکل جاتے ہیں۔
ان کے بقول عورتوں پر ہونے والا ہر قسم کا تشدد چاہے وہ تیزاب گردی ہو، ریپ، جسمانی و ذہنی تشدد یا قتل، یہ سب واقعات بتاتے ہیں کہ ان کے پیچھے غیرت کے سوا تمام عوامل شامل ہوتے ہیں۔
جرگہ اور پنچایتی نظام
سندھ میں غیرت کے نام پر قتل یا کارو کاری کے اکثر واقعات کا سننے میں آتا ہے۔ کارو کا مطلب سیاہ مرد اور کاری کا مطلب سیاہ عورت ہے۔ عام لفظوں میں کہیں تو مارنے والا یہ کہتا ہے مبینہ طور پر سیاہ کاری میں ملوث عورت اور مرد کو کارو یا کاری یا غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
کارو کاری ہونے والی عورتوں اور مردوں کو سندھ میں بنا کفن و غسل کے قبروں میں اتار دیا جاتا ہے جن پر نہ کوئی کتبہ ہوتا ہے نہ ہی ان کی نمازِ جنازہ اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔
سندھ سوہائی آرگنائزیشن کے رکن مظہر حسین چاچڑ کہتے ہیں کہ کارو کاری کے فیصلے کرنے والے جرگے کشمور، کندھ کوٹ، دادو، گھوٹکی، جیکب آباد سے نکل کر اب حیدر آباد جیسے شہر تک پہنچ چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے قتل میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ایک تو تعلیم کی کمی اور دوسرا مضبوط جاگیردارانہ نظام کا ہونا ہے۔ جب کوئی سردار یا وڈیرہ چاہتا ہے تو وہ کسی بھی مخالف کو پھنسانے یا ہراساں کرنے کے لیے اِن کاموں کا سہارا لیتا ہے۔ یہ کام وہ اپنے غلاموں کے ذریعے کرا دیتے ہیں۔
مظہر چاچڑ کے مطابق مختلف کیس اسٹڈی میں یہ بات سامنے آئی کہ ان وڈیروں کے غلام اپنی بیویوں یا گھر کی دیگر خواتین کو بلا جواز قتل کر دیتے ہیں اور پھر مخالف قبیلے پر یہ الزام لگا دیتے ہیں کہ ہم نے فلاں شخص کی وجہ سے غیرت کے نام قتل کر دیا۔ اس کے سبب مخالف قبیلے کو دباؤ میں لانا آسان ہوجاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دیہی علاقوں سے نکل کر اب یہ قتل شہروں تک اس لیے پہنچ گئے ہیں کہ متاثرہ عورت یا مرد جب موت کے ڈر اور خوف سے وہ علاقہ یا گاؤں چھوڑ کر شہر میں جاکر چھپ جاتے ہیں تو جرگوں اور پنچایتوں میں ہونے والے فیصلے پر عمل تب ہی مکمل ہوتا ہے جب تک انہیں ڈھونڈ نہ لیا جائے۔
طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ جرگہ اور پنچایتی نظام خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اگر ریاست اس نظام کو ختم کرنے میں ناکام ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایسے جرگوں کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں جنہیں ہلانا ممکن نہیں۔
ریسرچر فہمیدہ ریاض کے مطابق جہاں تک ان کیسز میں گرفتاریوں کے بعد رہائی کی ہے تو ایسے واقعات دیکھے گئے ہیں جس میں مدعی لڑکی کے گھر والے تھے اور پھر انہوں نے ہی مخالف خاندان سے صلح کرلی۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر و بیشتر کیسز میں تحقیقات کا رخ ایسے تبدیل کردیا جاتا ہے جیسے عام قتل کی ایف آئی آر درج کروائی ہو جس سے بہرحال فائدہ ملزم کو ہوجاتا ہے۔ پولیس کو فساد بالعرض کا سیکشن لگانا ہوتا ہے۔ لیکن پولیس یہ سیکشن نہیں لگاتی۔
سندھ سوہائی آرگنائزیشن کے رکن مظہر چاچڑ کہتے ہیں 2004 سے مشرف دور سے دفعہ 311 کے تحت اب ایسے ہونے والے کیسز میں ریاست مدعی بنتی ہے۔ لیکن قتل کے الزام میں آیا ہوا ملزم کمزور تفتیش، ایف آئی آر اور عدم ثبوت اور جھوٹے گواہان کی مدد سے بچ نکلتا ہے۔ اسی لیے آج تک سندھ میں کسی بھی ایسے فرد جو غیرت کے نام پر قتل میں ملوث ہو اسے سزا نہیں مل پائی۔ لیکن کارو کاری قرار دی جانے والی ویران قبروں میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔
فورم