جرمن ایئر لائن لفتھانزا نے جمعرات کو مشرق وسطیٰ کی صورت حال کی وجہ سے تہران کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی میں توسیع کر دی ہے، جو کہ شام میں ایرانی قونصل خانے پر مشتبہ اسرائیلی فضائی حملے کےخلاف ایران کی کسی جوابی کارروائی کے لیے الرٹ ہے۔
ایک ایرانی خبر رساں ایجنسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک عربی رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تہران کی تمام فضائی حدود فوجی مشقوں کے لیے بند کر دی گئی ہیں، لیکن پھر اس رپورٹ کو ہٹا دیا گیا اور ایسی خبر جاری کرنے کی تردید کی گئی۔
یکم اپریل سے جب اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے کے احاطے پر بمباری کرنے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے، خطہ اور امریکہ ایران کے جوابی حملے کے لیے چوکس ہیں۔
ایرانی روحانی لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر اپنی تقریر میں شام میں ایرانی جنرلز کی ہلاکت پر اسرائیل کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ اسرائیل کو اس حملے کے لیے "سزا ملنی چاہیے اور ایسا ہو گا۔"
اس حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے سات ارکان ہلاک ہوئے تھے، جن میں اس کی ایلیٹ یونٹ قدس فورس کے ایک سینئر کمانڈر بھی شامل تھے۔
خامنہ ای کے جواب میں اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا کہ اگر ایران نے اپنی سرزمین سے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کی تو اس پر براہِ راست حملہ کیا جائے گا۔
اسرائیل نے، جس نے غزہ کی پٹی میں چھ ماہ قبل ایران کی حمایت یافتہ عسکریت پسند تنظیم حماس کے خلاف جنگ شروع کی تھی، دمشق پر حملے کے پیچھے ہونے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ایران جانے والی دو ایئر لائنز کا ردعمل
لفتھانزا نے جمعرات کو کہا کہ اس نے تہران سے پروازوں کی آمد و رفت کی معطلی میں دو دن کی توسیع کر کے ممکنہ طور پر 13 اپریل تک پروازیں معطل کر دی ہیں۔
ایک ترجمان نے کہا کہ اس نے گزشتہ اختتام ہفتہ فرینکفرٹ سے تہران کے لیے فلائٹ معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ عملے کو تہران میں رات گزارنے کے لیے اترنے سے بچایا جا سکے۔
لفتھانزا اور اس کی ذیلی کمپنی آسٹرین ایئر لائنز تہران کے لیے پرواز کرنے والی صرف دو مغربی ایئرلائنز ہیں، جہاں زیادہ تر ٹرکش اور مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز خدمات انجام دیتی ہیں۔
آسٹرین ایئر لائنز نے، جو لفتھانزا کی ملکیت ہے اور ہفتے میں چھ بار ویانا سے تہران کے لیے پرواز کرتی ہے، کہا ہے کہ وہ اب بھی جمعرات کو پرواز کرنے کا ارادہ کر رہی ہے لیکن رات بھر کے وقفے سے بچنے کے لیے اوقات کو ایڈجسٹ کر رہی ہے۔
تہران کے لیے پرواز کرنے والی دیگر بین الاقوامی ایئر لائنز کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان سامنےنہیں آیا۔
شمالی امریکہ میں امارات اور قطر ایئرویز کی پروازوں کے لیے ایرانی فضائی حدود بھی ایک اہم اوور فلائٹ روٹ ہے۔
کیا حملہ عنقریب ہونے والا ہے؟
بلومبرگ نے بدھ کو امریکی اور اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل میں فوجی اور حکومتی اہداف کے خلاف ایران یا اس کے پراکسیز کی طرف سے بڑے میزائل یا ڈرون حملے عنقریب ہونے والے ہیں۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے ساتھ ایک کال میں واضح کیا کہ امریکہ ایران کے کسی بھی خطرے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا۔
صدر بائیڈن نے بھی کہا ہے اسرائیل کی امداد کے لیے کےہمارا عزم آہنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اپنے قونصل خانے پر حملے کے جواب میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کی دھمکی دے رہا ہے اور اسرائیل کے لیے ہماری امداد اور عزم آہنی ہے۔ وہ دورے پر آئے جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کیشیدا کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی بریٹ میک گرک نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور عراق کے وزرائے خارجہ کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ ایران کو ایک پیغام پہنچانے کے لیے اس پر زور دیں کہ وہ کشیدگی کو کم کرے۔
ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ان ممالک نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان سے فون پر بات کی ہے۔
8 جنوری 2020 کو، ایران کے پاسداران انقلاب نے غلطی سے یوکرین کی ایک مسافر پرواز کو تہران سے اڑان بھرنے کے فوراً بعد اس وقت مار گرایا جب بغداد کے ہوائی اڈے پر امریکی ڈرون حملے میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔
ایرانی فورسز نے 3 جنوری کو سلیمانی کی ہلاکت کے بدلے میں عراق میں امریکی فوجیوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغے تھے۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملے کے آغاز کے بعد سے، جس میں اسرائیل کے مطابق ,200 افراد ہلاک ہوئے تھے،ایرانی حمایت یافتہ گروہ پورے خطے میں میدان میں آ گئے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی بمباری سے اب تک 33,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔جن میں ایک تہائی سے زیادہ بچے اور خواتین ہیں۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم