پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر بنوں میں محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے دفتر پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے زیر حراست شدت پسندوں کے حالیہ قبضے کے واقعے سے ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ چند سال قبل تک ٹوٹ پھوٹ کاشکار کمزور شدت پسند تنظیم دوبارہ اس قدر منظم اورمضبوط کیسے ہوگئی؟
اتوار کو بنوں میں انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی کے دفتر میں تفتیش کے لیے لائے گئے ٹی ٹی پی کے زیرحراست شدت پسندوں نے سیکیورٹی اہلکاروں کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنالیا تھا۔ یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے فوجی آپریشن کرنا پڑا جو منگل کو رات گئے تک جاری رہا۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف چوہدری کے مطابق 35 شدت پسندوں نے یہ صورتِ حال پیدا کی تھی جن میں سے 25 سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہوئے، سات نے ہتھیار ڈالے اور تین فرار کی کوشش میں گرفتار ہوئے۔
بنوں کے حساس علاقے میں موجود سی ٹی ڈی کے دفتر پر قبضے کا واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا جب کالعدم ٹی ٹی پی نے حال ہی میں جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
ستائیس نومبر کو ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے ایک روز بعد ہی شدت پسند گروہ کے نام نہاد 'وزیرِ دفاع' مفتی مزاحم نے ایک اعلامیے میں تحریک کے تمام گروپ لیڈرز کو احکامات جاری کیے کہ پاکستان بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اورسیکیورٹی فورسز پر حملے کریں۔
مفتی مزاحم ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد کا تنظیمی نام ہے جن کا تعلق خیبرپختونخوا کے ضلع دیر کے علاقے ثمر باغ سے ہیں۔
مفتی مزاحم کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے شروع کرنے کے اعلامیے کے چند دن بعد ہی امریکہ نے قاری امجد سمیت شدت پسند تنظیم القاعدہ برِصغیرکے تین دیگر رہنماؤں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
ٹی ٹی پی کے حملوں کی استعداد میں اضافہ کیوں؟
دسمبر 2007 میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں فعال مقامی طالبان گروہوں کے انضمام سے وجود میں آنے والی ٹی ٹی پی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے سمیت قبائلی اضلاع میں فوج کی موجودگی کو جواز بناتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔ ان کارروائیوں میں سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکاروں سمیت عام شہری بھی نشانہ بنے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سن 2020 کے وسط تک ٹی ٹی پی پاکستانی فورسز کے کریک ڈاؤن اور افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے تنظیم کی قیادت کی ہلاکت کے سبب کافی حد تک کمزور ہوگئی تھی۔ اسی عرصے کے دوران تنظیم کے اندر دھڑے بندی کے باعث بعض رہنما سرحد سے ملحقہ افغان علاقے کنڑ اور ننگرہار چلے گئے تھے۔
بعض مبصرین کے مطابق امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ منظم ہونے کا حوصلہ دیا۔ جولائی 2020 کے بعد ٹی ٹی پی کے 2014 میں الگ ہونے والے دھڑے دوبارہ متحد ہوئے جب کہ پاکستان میں القاعدہ اورلشکرجھنگوی جیسی شدت پسند تنظیموں کا حصہ رہنے والے بعض افراد بھی ٹی ٹی پی کا حصہ بن گئے۔
ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات سے باخبر ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ٹی ٹی پی میں ناراض دھڑوں اور نئے شدت پسندوں کی شمولیت کے بعد تنظیم کا نیا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے بعد ان کے حملوں کی تعداد اور استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی کا نیا تنظیمی ڈھانچہ کیاہے ؟
ٹی پی پی کے نئے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے کالعدم جماعت کے اندرونی معاملات سے باخبر افراد اور قانون نافذ کرنے والے افسران وماہرین سے بات چیت کے ساتھ ساتھ تنظیم کے اندرونی طورپر تقسیم شدہ تنظیمی مواد کابھی مطالعہ کیا گیاہے۔
ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات سے باخبر افراد، قانون نافذ کرنے والے افسران اورماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نورولی نے ماضی کی غلطیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گزشتہ دوسالوں میں تنظیم سازی کے معاملے پرکافی سنجیدگی دکھائی ہے جس کا اظہار وہ اپنی تحریر کردہ "انقلاب محسود" اوردیگر مطبوعات میں بھی کرچکے ہیں۔
حاصل کردہ معلومات کے مطابق تنظیم کو فی الحال ملکی سطح پر نو ڈویژنز میں تقسیم کیا گیاہے جسے تنظیمی طور پر افغانستان کی طرز پر صوبے یا ولایت کا نام دیا گیاہے۔
ان نو ڈویژنوں میں خیبرپختونخوا اورسابق قبائلی علاقوں کو سات ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیاہےجس میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور، مالاکنڈ، مردان اورہزارہ شامل ہے۔
بلوچستان کے علاقوں کو ژوب ڈویژن میں شامل رکھا ہے جب کہ کراچی کے نام سے ایک علیحدہ ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے مذکورہ ڈویژنوں کی سربراہی کے لیے مرکزی تنظیم رئیس یا والی کا انتخاب کرتی ہے جس کی مدت ایک سال ہے۔ ڈویژن کی سطح کے سربراہ کی معاونت کے لیے ولایتی شوریٰ تشکیل دی گئی ہیں جب کہ ہر ڈویژن میں تحصیل کی سطح پر نظامی مسئول کی زیرِنگرانی مزید تنظیم سازی کی گئی ہے جن کی تقرریاں ڈویژن کے رئیس یا والی کی جانب سے کی جاتی ہے۔
ٹی ٹی پی کی مرکزی سطح پر بھی از سرنو تنظیم سازی کی گئی ہے جس میں تنظیم کے مرکزی امیر اورنائب امیر کوسرِفہرست رکھا گیاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک رہبری شوریٰ اور متعدد وزارتیں اور ادارے بھی قائم ہیں۔ ان وزارتوں کے سربراہان بالحاظ عہدہ تنظیم کی رہبری شوریٰ کے رکن ہوتے ہیں۔
نئے تشکیل کردہ اداروں میں وزارتِ دفاع یا نظامی ادارہ سرِفہرست ہے جس کا سربراہ قاری امجد عرف مفتی مزاحم کو بنایا گیاہے۔ اس نام نہاد وزارت کو چلانے کے لیے نظامی شوریٰ تشکیل دی گئی ہے جسے خطوں کی سطح پر شمالی وجنوبی زونز میں تقسیم کیا گیاہے۔
نئی تنظیم سازی میں وزارتِ اطلاعات، فلاحی ادارہ، سیاسی ادارہ استخباراتی (انٹیلی جنس)ادارہ اور اقتصادی ادارہ نامی شعبے بھی تشکیل دیے گئے ہیں جن کے سربراہان کوبھی بالحاظ عہدہ رہبری شوریٰ کے اراکین قرار دیا گیاہے۔ ان شعبوں کے سربراہان ہر ڈویژن یا ولایت کی سطح پراپنے شعبوں کے نگرانوں کا تقرر کرچکے ہیں۔
'قبائلی ڈھانچے سے شہری ڈھانچے میں تبدیلی'
ٹی ٹی پی کی از سرِنو تنظیم سازی میں مختلف تحریروں میں اس بات پرزور دیا گیاہے کہ ماضی کی طرح حلقوں کے بجائے اب تنظیم پلاٹون یا یونٹس (جسے دلگی کہاجارہاہے) کی سطح پرفعال کی گئی ہے۔
ٹی ٹی پی کی ایک اندرونی تنظیمی تحریر، جس کی کاپی وائس آف امریکہ کے پاس موجودہے، میں کہا گیاہے کہ "حلقہ نظام کی وجہ سے ہمیشہ تحریک ٹوٹنے کے خطرات سے دوچار تھی۔ اگر ایک حلقہ ناراض ہوتا تو اس کی وجہ سے تحریک ٹوٹ جاتی تھی۔"
تحریر میں مزید لکھا گیاہے کہ "حلقے کی سطح پرکارروائیوں کا تناسب کم تھا کیوں کہ مجاہدین ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود سارا حلقہ ایک کارروائی کرکے اپنے دل کوتسلی دیتا تھا جب کہ یونٹ یا پلاٹون نظام میں ہرفرد زیادہ سے زیادہ کارروائیاں کرنے کی کوشش کرے گا۔"
شدت پسندگروہوں کامطالعہ کرنے والے پشاور کے سینئرصحافی فخرکاکا خیل کا اس حوالے سے کہناہے کہ ٹی ٹی پی کا حلقوں کے بجائے یونٹوں کی طرز پرفعال ہونے سے یہ لگ رہاہے کہ تنظیم روایتی قبائلی ڈھانچے سے نکل کرشہری ڈھانچے میں اپنے آپ کو تبدیل کررہی ہے۔
فخر کاکا خیل کے مطابق "ٹی ٹی پی پہلے قبیلوں کی بنیاد پرحلقوں کی سطح پر فعال تھی جیسے حلقہ محسود، حلقہ اورکزئی ، جہاں تنظیم سے زیادہ قبائلی وابستگی کی زیادہ اہمیت تھی لیکن اب تنظیم نے اپنا ڈھانچہ تبدیل کیا ہے۔"
انہوں نے کہاکہ 2013 میں امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد سوات سے تعلق رکھنے والے مولانا فضل اللہ شدت پسند گروہ کے سربراہ بنے تو متعدد قبائلیوں کی سطح پرتشکیل حلقوں نے انہیں نیا امیر ماننے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد تنظیم شدید گروہ بندی کا شکارہوگئی تھی۔
ان کے بقول، "اب نئی تنظیم میں قبائلی بنیادوں کے بجائے تنظیمی بنیادوں پرمختلف علاقوں کےذمے دار بنائے گئے ہیں تاکہ تنظیم میں قبائلی بنیادوں پر اختلافات پیدا نہ ہوں۔"
کالعدم ٹی ٹی پی کی تنظیمِ نو کے بعد حالیہ کچھ عرصہ میں تنظیم نے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پولیس پر کئی حملے کیے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں سال دہشت گردوں کی کارروائیوں میں 100 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نےپیر کو ایک نیو بریفنگ کے دوران افغانستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کو روکیں جو افغانستان کے پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔