رسائی کے لنکس

پاکستان میں تاجروں سے ٹیکس لینا اتنا مشکل کیوں؟


Miftah Ismael
Miftah Ismael

کراچی۔پاکستان کی حکومت نے ملک بھر میں تاجروں پر عائد کیے جانے والا فکس ٹیکس واپس لے لیا ہے جس کے بعد ہ پاکستان میں تاجروں سے ٹیکس جمع کرنے کا معاملہ پھر التوا کا شکار ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے جولائی کے بجلی کے بلوں میں تاجروں پر ٹیکس عائد کیا تھا جس پر تاجر برادری کا شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔

وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آل پاکستان انجمن تاجران کے رہنماوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل حکومت نے فکس ٹیکس کی رقم بجلی کے بلوں میں عائد کرکے اسے وصول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وفاقی حکومت نے اس سال بجٹ میں فکس ٹیکس نظام کے تحت ریٹیلرز سے تقریباً 42 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن وفاقی وزیر نے جمعے کو کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ فکس ٹیکس ختم کرنے سے صرف سات ارب روپے کا نقصان ہو گا۔

لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ملک میں کوئی بھی حکومت لاکھوں ریٹیلرز سے ٹیکس وصول کرنے یا انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کُل معیشت کا تقریبا 20 فی صد ریٹیل سیکٹر پر محیط ہے اور یہ ملک میں معیشت کا تیسرا بڑا شعبہ ہے جہاں افرادی قوت کے تقریبا 15 فی صد افراد کو روزگار ملا ہوا ہے۔ لیکن حکومت اس شعبے سے وابستہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں تاحال ناکام رہی ہے۔ ان میں سے زیادہ ترغیر رجسٹرڈ تاجر ہیں جو حکومتی خزانے میں انکم ٹیکس (براہ راست ٹیکس ) ادا نہیں کرتے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ریٹیل سیکٹر سے صرف چھ ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کیا گیا تھا۔

اگرچہ ٹریڈ باڈیز اور خوردہ فروشوں کی جانب سے حکومت کے اس اعلان کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا۔ لیکن کئی تجزیہ کاروں اور معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کاخیال ہے کہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے میں تاجروں کی طاقت ور لابی، ان کا شٹر پاور جس کے ذریعے وہ ہڑتالیں اور احتجاج کی کال دیتے ہیں اور پھر حکمران اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کی بدولت ممکن ہوا ہے۔


"ریونیو کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے بھاری بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار کیا جائے گا"

لیکن ٹیکس ماہر ذیشان مرچنٹ نے حکومت کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے اور حکومت محصولات کی وصولی میں اضافہ نہیں کر سکے گی اور یقیناً اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے بھاری بالواسطہ ٹیکسز پر انحصار کیا جائے گا جو کہ پاکستان میں تاریخی طور پر معمول کی بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجروں کی ایک مضبوط لابی ہے جو ان پر کسی بھی ٹیکس کے نفاذ کی ہمیشہ سے شدید مخالفت کرتی آئی ہے۔ ملک میں 30 لاکھ ریٹیلرز میں سے 5 لاکھ بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ لگ بھگ 22 کروڑ کی آبادی ملک میں صرف 32 لاکھ افراد ٹیکس فائلر ہیں جن میں سے 13 لاکھ کے قریب تو تنخواہ دار ٹیکس فائلرز ہیں۔

ان کے خیال میں یہی مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی آبادی تقریبا 2 فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے لیکن ٹیکس فائلرز اس قدر تیزی سے نہیں بڑھ رہے اور یہی وجہ ہے کہ مجموعی قومی معیشت کے مقابلے میں ٹیکس کی نسبت ہمیشہ کم ہی رہے گی جو اس وقت حکومتی اعداد و شمار کے مطابق محض 9.2 فی صد ہے۔

ذیشان مرچنٹ نے مزید کہا کہ جب امیر طبقے سے ٹیکس وصولی نہیں ہوپاتے تو ریاست بالراست ٹیکس کا نفاذ عمل میں لاتی ہے۔ بجلی کے بلوں ہی کو دیکھ لیں جس میں سیلز ٹیکس، ایکسٹرا سیلز ٹیکس، الیکٹریسٹی ڈیوٹی، فیول سرچارج ایڈجسٹمنٹ، ٹی وی لائسنس فیس، سمیت کئی ٹیکسز کا نفاذ ہوتا ہے۔

اسی طرح موبائل فونز، گیس اور ہر طرح کے بلز میں مختلف بالراست ٹیکس وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ گزشتہ 75 سال سے جاری ہے اور آگے بھی ایسے ہی چلتا دکھائی دے رہا ہے۔

تاہم اس میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ جب شہریوں کو لگے گا کہ ان کا ٹیکس کا پیسہ ان کی بہتری کے لیے لگایا جارہا ہے تو انہیں ٹیکس دینے کے لیے راضی کرنا آسان ہوگا۔

کینیڈا اور برطانیہ وغیرہ کے شہریوں کو آمدنی کے 40 فی صد تک کا ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے لیکن انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ انہیں صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر وغیرہ تقریبا مفت ملے گا۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ آئی آئی چندریگر روڈ جو ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی میں سب سے اہم ترین کاروباری شاہراہ ہے، بارشوں کے بعد اس کا تباہ حالی دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کس قسم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ جب کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ، پانی، صحت اور دیگر مسائل سے عام طور پر شہریوں کو خود ہی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔

"انکم ٹیکس کو فکس کردیا جائے" تاجروں کا مطالبہ

اُدھر تاجر رہنما عتیق میر کا کہنا ہے کہ حکومت سے تاجر مطالبہ کررہے تھے کہ تاجروں کو انکم ٹیکس کو فکس کردیا جائے لیکن حکومت نے سیلز ٹیکس کی مد میں ان پر فکس ٹیکس عائد کردیا جو ری ٹیلرز پرلاگو ہی نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجروں انکم ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں جو فکس ہونا چاہیے جب کہ اس کو وصول کرنے کے لیے بھی کوئی اور طریقۂ کار اپنایا جانا چاہیے۔ تاجروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ فکس ٹیکس کو بجلی کے بلوں میں شامل کرنے سے انہیں بجلی کا فی یونٹ 45 روپے تک کا پڑے گا جو ناقابل برداشت ہے۔

فکس ٹیکس اسکیم کے تحت حکومت نے بجلی کے کمرشل کنکشنز پر 30 ہزار تک کے سالانہ بل پر 3 ہزار روپے ماہانہ، 50 ہزار روپے کے بلز پر 5 ہزار روپے اور 50 ہزار سے زائد بجلے کے بلوں والی دکانوں پر 10 ہزر روپے ماہانہ کا فکس ٹیکس عائد کیا تھا۔ جب کہ نان فائلر دکانداروں پر اس ٹیکس کی شرح دہری رکھی گئی تھی۔ جس کے بعد ان سے کوئی اور ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔ جس سے حکومت کا خیال تھا کہ اس عمل سے 25 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا۔

وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ فکس ٹیکس کے نفاذ سے قبل چھوٹے دکان داروں کا احساس نہ کرنا غلطی تھی۔
وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ فکس ٹیکس کے نفاذ سے قبل چھوٹے دکان داروں کا احساس نہ کرنا غلطی تھی۔


اُدھر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے یہ بھی اعتراف کیا کہ اس ٹیکس کے نفاذ میں حکومت سے بھی غلطی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کے نفاذ سے قبل یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ بالکل چھوٹے دکان داروں کا کیا ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس کی کلیکشن کی وجہ سے بجلی کے بلوں کی وصولیاں کم پڑگئیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ تین ماہ کے عرصے میں تاجروں کو رجسٹرڈ کیا جائے گا، اس حوالے سے کمی بیشیوں کو دور کرکے نظام کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG