رسائی کے لنکس

بھارت میں شدید گرمی کی لہر ، 122 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا


بھارت کے کئی علاقوں میں اپریل کے دوران درجۂ حرارت 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا۔ فائل فوٹو
بھارت کے کئی علاقوں میں اپریل کے دوران درجۂ حرارت 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا۔ فائل فوٹو

بھارت کے بیشتر علاقے اس وقت زبردست ہیٹ ویو یا شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور کئی ریاستوں میں بجلی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے۔

عام طور پر بھارت میں مئی اور جون کے مہینے گرم ہوتے ہیں لیکن رواں سال میں یہ سلسلہ مارچ کے اوائل ہی سے شروع ہو گیا ہے۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق شمال مغربی و وسطی بھارت میں اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت 40 سے 50 ڈگری سیلسیس کے درمیان رہا تھا۔اسے گزشتہ 122 برسوں کے دوران سب سے زیادہ درجہ حرارت تسلیم کیا گیا ہے۔ مارچ میں بھی درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا اور 122 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق مئی میں بھی بھارت کے وسطی اور شمال مغربی حصوں میں درجۂ حرارت اوسط سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔

عام طور پر میدانی علاقوں میں جب درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچ جائے تو ہیٹ ویو کی وارننگ جاری کر دی جاتی ہے۔ اسے اوسط سے ساڑھے چار ڈگری زیادہ درجۂ حرارت قرار دیا جاتا ہے۔لیکن اگر درجۂ حرارت میں اضافہ ساڑھے چھ ڈگری سے بھی زیادہ ہوجائے تو اسے گرمی کی سنگین لہر کہا جاتا ہے۔

رواں برس بھارت کے مغرب میں راجستھان اور مہاراشٹرا کے ودربھ علاقے میں پورے اپریل میں درجۂ حرارت 40 سے 45 ڈگری کے سینٹی گریڈ کے درمیان رہا۔ دوسری جانب محکمۂ موسمیات کا خیال ہے کہ دہلی، پنجاب، ہریانہ، چنڈی گڑھ، جنوبی اتر پردیش، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیسں گڑھ اور تیلن،گانہ میں آئندہ چند روز کے اندر گرمی سے نجات ملنے کی امید ہے لیکن زرعی شعبے پر گرمی کی شدت کے اثرات کے خدشات برقرار ہیں۔

بھارت سمیت جنوبی ایشیائی خطوں میں موسمِ گرما میں گندم کی فصل کی کٹائی کے سیزن کا بھی آغاز ہوجاتا ہے۔ اس برس گرمی کی شدت میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سے گندم کی فصل پر اس کا برا اثر پڑ رہا ہے جو کہ کسانوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

شدید گرمی کی لہر انسانی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ خاص طور پر گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث پیٹ کے امراض پیدا ہو جاتے ہیں اس لیے سال 2015 کے بعد سے مرکزی و ریاستی حکومتیں گرم لہر کے اثرات سےبچنے کے لیے خصوصی ایڈوائزری جاری کرتی ہیں۔


مرکزی وزارت صحت میں سیکریٹری راجیش بھوشن نے اتوار کو ایڈوائزری جاری کرکے تمام ریاستی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ صحت کے معاملے میں طبی اہل کاروں اور متعلقہ کارکنوں کو مستعد رہنے کی ہدایت جاری کریں۔

انھوں نے کہا کہ گرم لہر سے متعلق امراض سے بچنے اور نمٹنے کے لیے ضروری ادویات اور دیگر اشیا جیسے کہ پانی اور مشروبات وغیرہ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

انھوں نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ صحت کے مراکز پر درجہ حرارت کو معمول پر رکھنے کے لیے لگائے گئے کولنگ آلات کے لیے بجلی کی بلا تعطل سپلائی یقینی بنائی جائے۔حکومت نے عوام کے لیے بھی گرم لہر سے بچنے کی تدابیر پر مشتمل ایڈوائزری جاری کی ہے۔

گرمی کی قبل از وقت لہر

عام طور پر بھارت میں مئی اور جون کو ہیٹ ویو کے مہینے تصور کیا جاتا ہے لیکن سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ،نئی دہلی سے وابستہ سائنس داں اکشت کمار گرمی کی شدت میں اس قبل ہی اضافے کے کئی اسباب بتاتے ہیں۔

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت میں رواں سال 11مارچ سے ہی ہیٹ ویو یا گرم لہر کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو اب تک جاری ہے۔

ان کے بقول قبل از وقت ہیٹ ویو کی کئی وجوہ ہیں۔ عام طور پر مارچ کے مہینے میں بارش ہو جاتی ہے لیکن رواں سال ایسا نہیں ہوا۔اس کے علاوہ راجستھان میں خلاف معمول اینٹی سائیکلون بننے کا سلسلہ بہت پہلے شروع ہو گیا۔ یکم مارچ کے بعد موسم میں قبل از مون سون ظاہر ہونے والی تبدیلیاں بھی دکھائی نہیں دیں۔

ماہرین اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ماحولیات میں تبدیلی کی وجہ سے عالمی حدت میں جو اضافہ ہو رہا ہے، وہ بھی اس ہیٹ ویو کی ایک وجہ ہے۔ وہ اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو آئندہ برسوں میں بھی اس قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اکشت کمار اس اندیشے کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت بھارت اور پاکستان میں جو گرم لہر چل رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے۔ جب کہ اس کا اتنا اثر نہیں ہونا چاہیے تھا جتنا سامنے آیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ اس ہیٹ ویو کی واحد وجہ عالمی سطح پر درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔

ہیٹ ویو: پاکستان میں مزید گرمی کی پیش گوئی
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:12 0:00


وہ محکمۂ موسمیات کے اس خیال سے متفق ہیں کہ مئی کے پہلے ہفتے میں اس گرم لہر سے کچھ نجات مل سکتی ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شمال مغربی اور مغربی وسطی علاقوں میں جیسے کہ گجرات، راجستھان، پنجاب اورہریانہ میں مئی میں بھی درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے۔ ان کے بقول ملک کے بیشتر حصوں میں رات کے اوقات میں موسم معمول سے زیادہ گرم رہے گا۔

محکمہ موسمیات کے ڈائرکٹر جنرل مرتونجے مہاپاترا نے اتوار کو ایک نیوز بریفنگ میں بتایا کہ دو مئی سے چار مئی کے درمیان دہلی، پنجاب، ہریانہ اور بعض دیگر علاقوں میں ہلکی بارش ہو سکتی ہے اور گرد آلود ہوائیں چل سکتی ہیں جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں کمی آنے کی امید ہے۔

محکمہ موسمیات کے سینئر سائنس دان آر کے جینامانی کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ دنوں میں مغربی راجستھان کے کچھ علاقوں اور مہاراشٹرا کے ودربھ علاقے کو چھوڑ کر ہر جگہ ہیٹ ویو کا اثر کم ہو جائے گا۔

لیکن اتوا رکے روز جاری ہونے والے محکمہ موسمیات کے بلیٹن کے مطابق آئندہ تین دنوں تک دہلی اور اس کے مضافات میں گرم لہر جاری رہے گی۔ البتہ گرد آلود ہوائیں چلنے کا بھی امکان ہے۔

بجلی کی بندش

ایک طرف لوگ گرمی سے پریشان ہیں اور دوسری طرف متعدد ریاستوں کو بجلی کی شدید قلت کا سامنا ہے جن میں دار الحکومت دہلی بھی شامل ہے۔

اکشت کمار کہتے ہیں کہ گرمیوں میں بجلی کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور سپلائی اور ڈیمانڈ میں بہت فرق پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے بجلی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بھی دہلی اور بعض دیگر ریاستوں میں بجلی کا بحران پیدا ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پیر کے روز مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے گھر پر ایک اہم اجلاس ہوا جس میں موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں بجلی کے وزیر آر کے سنگھ، وزیرِ ریلوے اشونی ویشنو اور کوئلے کے وزیر پرہلاد جوشی بھی موجود تھے۔

کئی ریاستوں میں بجلی کی سپلائی میں تخفیف کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس صورت حال کے لیے مرکزی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ بعض رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ کوئلے کی قلت کی وجہ سے بجلی کا بحران پیدا ہوا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ کوئلے کی کمی نہیں ہے۔


رپورٹس کے مطابق کوئلہ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیےریلوے کی وزارت نے اب تک کم از کم 50 مسافر گاڑیاں منسوخ کر دی ہیں۔ ٹرینوں کی منسوخی کی وجہ سے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ اور اڑیسہ کے مسافروں کو شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔

آل انڈیا پاور انجینئرز فیڈریشن کا کہنا ہے کہ سینٹرل الیکٹرسٹی اتھارٹی کے زیر اہتمام چلنے والے 173 پاور پلانٹس میں سے 60 فیصد میں کوئلے کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

فیڈریشن نے اس صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریلوے اور بجلی کی وزارت کے درمیان رابطے کے فقدان کی وجہ سے پورے ملک میں بجلی کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں گرمی کی وجہ سے بجلی کی کھپت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے بجلی کی سپلائی تین بار ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جمعے کو بجلی کی سپلائی 207.11 گیگا واٹ تک پہنچ گئی جب کہ منگل کو یہ سپلائی 201 گیگاواٹ تک تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG