رسائی کے لنکس

ہندوستان: مسلمان خواتین صحافیوں کےلیے بڑھتا ہوا خطرہ


بھارتی ریاست کرناٹکا کے شہر حیدرآباد دکن میں حجاب کے حق میں مظاہرے میں شریک خواتین۔ 11 فروری 2022ء (فائل فوٹو)
بھارتی ریاست کرناٹکا کے شہر حیدرآباد دکن میں حجاب کے حق میں مظاہرے میں شریک خواتین۔ 11 فروری 2022ء (فائل فوٹو)

بھارتی صحافی عرشی قریشی کی بھی اسی "بولی بائی‘ ایپ پر جعلی نیلامی کی گئی تھی جس میں بہت سی دیگر مسلم خواتین اور لڑکیوں کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا۔اگرچہ ایپ کو سخت تنقید کے بعد بند کردیا گیا ہے لیکن انہیں ڈرانے دھمکانے اوران کے خلاف آن لائن ٹرولنگ کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔

عرشی نے وی او اے کو بتایا کہ " اگر میں حکومت پر تنقید ی ٹویٹ کروں یا کوئی پوسٹ لگاؤں تو اکثر سماجی میڈیا پر میرے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے"۔

انھوں نے کہا کہ ایک صحافی کے طور پر یہ ان کا کام ہے کہ اپنے ملک کو متاثر کرنےوالے سماجی وسیاسی مسائل پر رپورٹنگ کی جائے۔لیکن ایسا کرنا مشکل اور خطرناک ہوتا جارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ وہ خاموش نہیں رہ سکتیں، کیونکہ یہی تو وہ چاہتے ہیں۔ وہ مسلم خواتین کی آواز کو خاموش کرنا چاہتے ہیں۔

یہ صرف عرشی قریشی کا معاملہ نہیں ہے۔ اس ہفتے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آزاد ماہرین نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں بھارتی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ممتاز مسلمان صحافی رعنا ایوب کو منظم طور پر ہراساں کرنا بند کیا جائے۔ بیان میں مزید مطالبہ گیا کہ ''صحافی رعنا ایوب کے خلاف آن لائن بدسلوکی اور فرقہ وارانہ حملوں کی ہندوستانی حکام فوری تحقیقات کرائیں اور ان کے خلاف عدالتی ہراسانی کا سلسلہ فوری بند کیا جائے''۔

رعنا ایوب کو خواتین کے حقوق، حکومت کے احتساب اور ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کی صورتحال پر مسلسل رپورٹنگ کی پاداش میں مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔رعنا نے منگل کو ٹوئٹر پر لکھا کہ " وہ ہمارے وجود، ہماری رپورٹنگ ، ہماری رائے کو معمولی قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے تمام پسندیدہ اینکرز ، پرائم ٹائم شوز، ٹویٹر ٹرینڈر ، رائٹ ونگ ایکوسسٹم، پروپیگنڈہ ویب سائٹس اور لیڈروں کو ایک صحافی کے خلاف اپنے دفاع پر لگادیتے ہیں''۔

میڈیا یر عتاب

گزشتہ چند برسوں سے ، ہندوستان دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک اور پابندیوں میں جکڑے ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔

کمیٹی ٹوپروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 2021ء میں دنیا کے مختلف حصوں میں ہلاک ہونے والے 27 صحافیوں میں سے پانچ کا تعلق بھارت سے ہےاورسیکولر اورجمہوری حیثیت کے باوجود رپورٹرز ودآوٹ بار ڈر کے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں میانمار اور پاکستان کے بعد ہندوستان کا 142واں نمبر ہے۔رپورٹرز ود اوٹ بارڈرز کا کہنا ہے کہ 2019 میں جب سے انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، تب سےمبینہ طور پر میڈیا پر ہندو قوم پرستوں کا حکومتی لائن پر چلنے کے لیے دباو بڑھ گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ بڑھتی ہوئی عوامی ہراسانی کا سامنا کرنے کے علاوہ مسلم صحافیوں، خاص طور پر خواتین کو اپنےکام کی جگہوں پر بھی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سی پی جے میں ایشیا پروگرام کے کوارڈینیٹر اسٹیون بٹلر نے وی او اے کو بتایا کہ بڑے ہندوستانی میڈیا اداروں میں بھی بہت سے مسلمان صحافیوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔بھارت میں آزاد میڈیا کو درپیش خطرات ملک کے جمہوری اداروں کو بھی کمزور کررہے ہیں۔ بٹلر نے کہا کہ " پریس کی آزادی کے بغیر جمہوریت قائم نہیں رہ سکتی۔"

اکثریت کی سیاست:

ہندوستان دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی جمہوریت ہے اور اس کی1 ارب 40 کروڑ کی آبادی میں سے تقریباً 14 فیصد مسلمان ہیں، لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ ملک تیزی سےعدم برداشت کا شکارہوتا جارہا ہے اور بعض اوقات اپنے مسلمان شہریوں کے لیے خطرناک بھی بن جاتا ہے۔یہ گروپ مودی سمیت حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی پر ہندو مسلم کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک محقق جے شری باجوریا نے وی او اے کو بتایا کہ مرکز اور ریاست، دونوں سطحوں پر بی جے پی نے ایسے قوانین اور پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں کہ جو اقلیتوں اور کمزور برادریوں ، خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا موجب بن رہی ہیں۔

ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش سمیت سات ریاستوں میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں لاکھوں ہندوستانیوں نے ووٹ ڈالے، اس دوران چند ہندو مذہبی گروہوں نے مبینہ طور پر سیاسی فائدے کے لیے مذہبی جذبات کو بھڑکایا۔حالیہ ہفتوں کے دوران ، بی جے پی کی سیاسی ریلیوں میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر تشدد کی دھمکیاں دی گئیں اور چند رہنماوں نےمسلمانوں کو دہشت گرد تک قرار دیا۔

ایک نیا قانون ، جس میں مسلم لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں جحاب پہننے پر پابندی عائد کردی گئی ہے، ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں مظاہروں اور اسکولوں کی بندش کا باعث بنا ہوا ہے۔ جے شری باجوریا نے کہا کہ حجاب پر پابندی ، ہندوستانی حکام کی جانب سے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ پسماندہ رکھنے کی کوششوں کی تازہ مثال ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تشدد کو ہوا دیتے ہیں۔

صحافی عرشی قریشی کے نزدیک حجاب کی لڑائی صرف مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ انھوں نے وی او اے کو بتایا کہ حجابی مسلم خواتین اپنے آئینی حق کےلیے لڑ رہی ہیں، وہ حق جو ایک جمہوری ملک میں ان سے چھینا جا رہا ہے۔

اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے عوامی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے اپنی پارٹی کی پالیسیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن انھوں نےاس ماہ ایک انتخابی ریلی میں دعویٰ کیا کہ انھیں مسلم خواتین کی حمایت حاصل ہے۔ بھارتی میڈیا میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ کہتےہیں کہ " انھوں نے مسلم بہنوں کو تین طلاق کے ظلم سے نجات دلائی، جس کے بعد مسلم بہنوں نے کھل کر بی جے پی کی حمایت شروع کی، تو ان سے ووٹ مانگنے والے بے چین ہوگئے، وہ مسلم بیٹیوں کو ترقی سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں؛ جب کہ حکومت مسلم خواتین کے ساتھ کھڑی ہے''۔

XS
SM
MD
LG