روسی صدر ولادیمیر پوٹن نےجب مشرقی یوکرین کے دو الگ ہونے والے علاقوں کو آزاد تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو نیٹو رکن اور پڑوسی ملک ترکی نے اس اقدام پرجلدی سے تنقید کی، لیکن کسی بھی تعزیری اقدامات کا اعلان کرنے سے اجتناب کیا ۔
ترکی، جو بحیرہ اسود کا اہم ملک ہے، ایک انوکھی کشمکش جیسی صورت حال میں الجھا ہوا ہے۔ ایک طرف تو اس کے یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن دوسری جانب انقرہ اصولی طور پر روس کے خلاف پابندیوں کی مخالفت بھی کرتا ہے جبکہ مغربی ممالک اپنے وعدوں کے مطابق ماسکو پر پابندیاں نافذ کررہے ہیں۔
یوکرین کے بحران نے صدر رجب طیب ایردوان کو نیٹو کے اندر اپنے فرائض پر کار بند ہونے کے ساتھ ساتھ ان سفارتی تعلقات میں توازن پیدا کرنے کا سامنا ہے،جس کے ذریعے نیٹو کےرکن کی حیثیت سے ترکی کو فرائض کو نبھانا ہے اور ساتھ ساتھ ترکی کو حالیہ کرنسی بحران کے تناظر میں ملکی معیشت کو مزید جھٹکوں سے بھی بچانا ہے۔
اس مخمصے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ترکی ماسکو کے خلاف کسی بڑے ا قدام کا حصہ بنتا ہے تو اسے روس سے توانائی کی رسد، تجارت اور سیاحت کونقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں گلوبل سورس پارٹنرز کے استنبول میں مقیم تجزیہ کار اتیلا یسیلاڈا نے کہاہے کہ "یہ خون خرابے کے بغیر طویل تنازع یا روس کی توانائی کی برآمدات پر ٹھوس پابندیوں کا سوال ہے جو ترکی کو گہرا نقصان اور اس کے اقتصادی استحکام کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔
ترکی نے کئی دہائیوں سے اس معاملے پر توازن برقرار رکھا ہے اور صدر ایردوان اکثر پوٹن کے ساتھ اپنی دوستی کو نمایاں کرتے ہیں انہوں نے روس کو حملے کے خلاف خبردار کرتےہوئے بحران میں ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
ساتھ ہی ترک رہنما نے مغرب کے یوکرین کےتنازعے سے نمٹنے کے طریقہ کار کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیاہے۔
روس کی جانب سے یوکرین کے علیحدگی پسندوں کو تسلیم کرنے کو ترکی نے یوکرین کی علاقائی سالمیت کی ناقابل قبول خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ایردوان نے، جنہوں نے اس ماہ کیف کا دورہ کیا تھا، اسے مسترد کر دیا اور فریقین سے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ترکی نے یوکرین پر اپنے ردعمل میں جو لہجہ اپنایا ہے،اسے 2015 کے بعد سخت ترین زبان کہی جا سکتی ہے۔
یاد رہے کہ سن 2015 میں ترکی کی شامی سرحد کے قریب ایک روسی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بحران پیدا ہوگیا تھا۔
لیکن اس واقعہ کے سالوں بعد ایردوان اور پوٹن کے تعلقات میں گرمجوشی دیکھنے میں آئی ہے اور ترکی نے 2019 میں روس سے میزائل ڈیفنس نظام خریدا تھا۔
اس معاہدے پر امریکہ نے غصے کا اظہار کیا تھا اور پابندیاں بھی نافذ کی تھیں ۔ اس امریکی اقدام کے بعد انقرہ نے کسی بھی ملک کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت کی ہے۔
تازہ ترین صورت حال پر بات کرتے ہوئے ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے کہا ہے کہ "روس کے خلاف پابندیاں بےکار ہیں۔ آپ صرف مسائل کو التوا میں ڈال رہے ہیں''۔
انہوں نے مزید کہا کہ روس اور مغرب دونوں کو ہی اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرنے کے لیے نئے اصولوں اور قواعد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس کو نیٹو سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
توانائی اور تجارت میں روس کے ساتھ تعاون کے باوجود، ترکی نے یوکرین کو جدید ترین ڈرون بھی فروخت کیے ہیں اور ماسکو کی ناراضگی مول لیتے ہوئے ترکی نے یوکرین کے ساتھ مزید ڈرون تیار کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے ہیں۔
علاوہ ازیں خطے کے حالات بھی ترکی اور روس میں سفارتکاری کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ ترکی مشرق وسطیٰ کے ملک شام اور لیبیا میں روسی پالیسیوں کی مخالفت کرتا ہے اگرچہ ان دونوں ممالک میں ترکی روس کے ساتھ معروضی سطح پر تعاون کو بھی فروغ دیتا ہے۔
ماضی میں ترکی نے روس کے 2014 میں کریمیا کے الحاق، اور جارجیا کے ابخازیہ اور جنوبی اوسیشیا کے علاقوں کو آزاد تسلیم کرنے کی بھی مخالفت کرتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال روس ترکی کے لیے تقریباً 46 فیصد گیس کی فراہمی کا ذریعہ تھا۔ انقرہ درآمدی لاگت کو کم کرنے کے لیے ماسکو کے ساتھ مختصر مدتی گیس کے سودے کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
ترکی میں اندرونی طور پر اس کی کرنسی لیرا کی قدر میں کمی کے بعد مہنگائی میں 50 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے، جس سے ایردوان کی عوامی شہرت کو تقصان ہو اہے۔
یوکرین کے حالات پر بات کرتے ہوئے صدر ایردوان نے تفصیل بتائے بغیر کہا ہے کہ ترکی روسی حملے کی صورت میں نیٹو کے رکن کی حیثیت سے جو ضروری ہو گا وہ کرے گا۔
(خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا)