رسائی کے لنکس

ٹرمپ نے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی تین بڑی ٹیک کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں اور دوسرے ساتھیوں کو غلط طور پر سینسرشپ کا ہدف بنایا گیا ہے۔

ٹرمپ نے فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل کے وڈیو پلیٹ فارم یوٹیوب اور ان کے سربراہوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان بدھ کے روز نیو جرسی میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

میامی کی فیڈرل کورٹ میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے میں ان کے ساتھ دوسرے پٹیشنرز بھی شریک ہیں۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ ہم غیر اعلانیہ اور جزوی سینسر، خاموش کیے جانے، بلیک لسٹ کرنے اور ہمارے مواد کو ہٹائے جانے کی کارروائیوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ابلاغ میں شائستگی کے قانون مجریہ 1996 کی دفعہ 230 کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اپنی سروسز کو متعدل بنانے کے لیے ایسے شائع شدہ مواد کو اچھی نیت سے ہٹانے کی اجازت ہے جن میں سروسز کے معیار اور قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔

یہ قانون عمومی طور پر انٹرنیٹ کمپینوں کو ان کے صارفین کی جانب سے شائع کیے جانے والے مواد کی ذمہ داری سے استثنیٰ دیتا ہے۔

لیکن سابق صدر ٹرمپ اور کچھ دوسرے سیاست دان طویل عرصے سے ٹوئٹر، فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر یہ اعتراض اٹھاتے رہے ہیں کہ انہوں نے مواد کی اشاعت سے متعلق تحفظ فراہم کرنے والے اس قانون کا غلط استعمال کیا ہے اور ان سے یہ تحفظ واپس لیا جانا چاہئے یا انہیں حکومت کی طے کردہ شرائط کو پورا کرنا چاہئیے۔

ٹوئٹر، فیس بک اور یوٹیوب نے 6 جنوری کو کانگریس کی عمارت پر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے ہلہ بولے جانے کے بعد ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ٹرمپ کی پوسٹس کی اشاعت روک دی تھی کہ اس سے تشدد کو مزید ہوا مل سکتی ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق، سابق صدر ٹرمپ 2020 کے صدارتی انتخاب کے متعلق مسلسل یہ غلط دعوے کرتے رہے کہ وہ جیت چکے ہیں، جب کہ ریاستی حکام، مقامی انتخابی عہدے داروں، ان کے اپنے اٹارنی جنرل اور بہت سے ججز نے، جن میں ان کے اپنے تعینات کردہ کچھ جج شامل ہیں، یہ کہا کہ بڑے پیمانے پر ووٹنگ میں فراڈ اور جعل سازی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر نے اس بارے میں اپنا ردعمل دینے سے انکار کر دیا ہے۔

ٹرمپ اور دیگر پٹیشنرز کی جانب سے دائر کیے جانے والے دعوے میں کہا گیا ہے کہ ان پلیٹ فارمز پر ان پر پابندی یا ان کی اشاعت معطل کیے جانے سے پہلی آئینی ترمیم کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگرچہ یہ کمپنیاں پرائیویٹ ہیں۔

کیا فیس بک کے غلط استعمال پر سزا ملنی چاہیے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:51 0:00

فیس بک اور اس کے سی ای او، مارک زکربرگ کے خلاف کیس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر ٹرمپ کو فیس بک سے ہٹا دیا ہے۔

دعوے میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ انہیں پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے، جس کا تعین نہیں کیا گیا اور سیکشن 230 کو غیر قانونی قرار دے کر ٹرمپ اور دیگر پٹیشنرز کے اکاؤنٹ بحال کیے جائیں۔

کیلی فورنیا میں واقع سینٹا کلارا یونیورسٹی میں قانون کے ایک پروفیسر ایرک گولڈ مین نے کہا ہے کہ ٹرمپ کے دائر کئےجانے والے دعوے ناکام رہیں گے۔ انہوں نے یہ بات اس سے ملتے جلتے 60 دعوؤں کے مطالعے کے بعد کہی ہے۔

کمپیوٹر اینڈ کمیونیکیشنز انڈسٹری ایسوسی ایشن، جس میں فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل بھی شامل ہیں، کے صدر میٹ شوئرز کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کمپینوں کو اپنی سروسز کے قواعد کا اطلاق کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

(اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے حاصل کیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG