امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خاتمے کے لیے صدارتی حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد ان خاندانوں کو ملانے کی ایک کوشش بھی ہے جو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر ایک دوسرے سے الگ کر دیے گئے تھے۔
نئے امریکی صدر نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیا قانون نہیں بنا رہے بلکہ ان کے بقول وہ ناقص پالیسی کو ختم کر رہے ہیں۔
اپنی صدارت کے پہلے گھنٹے میں جو بائیڈن نے دو ہفتے قبل سابق صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر 16 بلین ڈالرز کی رقم سے دیوار کی تعمیر رکوانے کے لیے کانگریس کو ایک بل بھجوایا تھا جہاں اراکین کے درمیان یہ معاملہ طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ لبرل رہنما امریکہ کی شہریت کے لیے راستے آسان بنانا چاہتے ہیں جب کہ قدامت پسند غیر قانونی تارکیںِ وطن کو ہدف بنانا چاہتے ہیں۔
بائیڈن کی فوری توجہ 3100 کلو میٹر اس دیوار پر ہے جو امریکہ کی جنوبی سرحد پر بنائی جا رہی ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے اس دیوار کے ذریعے میکسیکو، ہنڈارس، ایل سیلواڈور اور گوئٹے مالا سے امریکہ داخل ہونے والے ہزاروں تارکینِ وطن کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی۔
سابق صدر ٹرمپ نے اس دیوار کی مرمت اور توسیع کے عمل کی قیادت کی تھی اور انہوں نے غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے والوں کو جیل میں رکھنے اور ان کو واپس ان کے وطن بھجوانے کی پالیسیوں کو زیادہ سخت بنایا تھا۔
بائیڈن ایک ایسے حکم نامے پر بھی دستخط کر رہے ہیں جو ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا۔ اس ٹاسک فورس کا کام ترک وطن کرنے والے ان 600 سے زائد بچوں کو اپنے والدین سے ملوانا ہے جنہیں وفاقی حکام نے 2017 اور 2018 میں ایک دوسرے سے بارڈر پر الگ کر دیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ خاتونِ اول جل بائیڈن متوقع طور پر اس کام میں ایک متحرک کردار ادا کریں گی۔
ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخطوں کی تقریب میں صدر بائیڈن نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ وہ خاندانوں کو الگ کرنے کے داغ کو دھو پائے ہیں۔ بائیڈن نے اس موقع پر صحافیوں کے سوالات نہیں لیے۔
ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ صدر بائیڈن کی حکمتِ عملی اس بنیادی اصول کے گرد گھومتی ہے کہ ہمارا ملک ایک محفوظ، منظم اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قائم امیگریشن سسٹم کے تحت تارکینِ وطن کو خوش آمدید کہتا ہے۔
اُن کے بقول یہ اُصول خاندانوں کو اکٹھا رکھتا ہے اور لوگوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ہمارے ملک میں اپنا کردار ادا کریں، بھلے وہ نئے نئے امریکہ آئے ہیں یا کئی نسلوں سے یہاں مقیم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ایک دیوار پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے تھے اور وہ ان بنیادی وجوہات سے لاتعلق تھے جن کے سبب لوگ ہماری جنوبی سرحد کی طرف آ رہے ہیں۔ یہ ایک محدود، بے کار اور کمزور حکمتِ عملی تھی جو ناکام ہو گئی۔
دوسری طرف سابق انتظامیہ کے سرحدوں سے متعلق اقدامات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بائیدن کے آرڈرز ہمیں بدنظمی اور لا قانونیت کی طرف لے جائیں گے۔
واشنگٹن میں قائم ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں پولیٹیکل ایڈووکیسی کے شعبے کی ڈائریکٹر جیسیکا اینڈرسن نے ایک بیان میں کہا کہ کرونا وبا سے پہلے کی طرح ویزوں کی بحالی، سیاسی پناہ سے متعلق پالیسیوں میں تبدیلی اور اوپن بارڈر پالیسیاں امریکی معیشت کے لیے نقصان کا باعث ہو سکتی ہیں۔ اُن کے بقول کرونا وبا کے باعث بہت سے امریکی پہلے ہی بے روزگار ہیں اور ملازمت کی تلاش میں ہیں۔
بائیڈن وسطی امریکہ کے ممالک کو نئی امداد کی پیش کش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں تاکہ یہ ملک بدعنوانی کا مقابلہ کر سکیں اور خطرات سے دوچار بعض بچوں کی امریکہ میں سکونت کے پروگرام کو بھی بحال کیا جا سکے۔
صدر بائیڈن امریکہ کے ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ادارے کو ہدایات جاری کر رہے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کی پالیسی کا جائزہ لیں جو غیر میکسیکی تارکینِ وطن کو پابند کرتی ہیں کہ وہ اس وقت تک میکسیکو میں رہیں جب تک امریکہ میں ان کی سیاسی پناہ کی درخواست کی سماعت کے لیے عدالتی تاریخ نہیں آ جاتی۔ تاہم صدر کا کہنا ہے کہ اس نظام کو فوری طور پر ختم نہ کیا جائے۔
بائیڈن کی امیگریشن پالیسی میں ان 60 ہزار سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا جو خطرناک سرحدی شہروں میں رہ رہے ہیں۔ بائیڈن پہلے ہی اس پروگرام میں نئی درخواستیں لینے سے روک چکے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ میکسیکو میں انتظار کرنے والوں کے مسئلے سے کیسے نمٹیں گے۔
صدر بائیڈن سابق ڈیموکریٹ صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے اس پروگرام کو بھی بحال کرنا چاہتے ہیں جو 18 سال سے کم عمر بچوں کو اپنے امریکہ میں مقیم والدین کے ساتھ رہنے کے لیے درخواست دینے کا اہل بناتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا ہے کہ سرحدوں پر صورتِ حال راتوں رات تبدیل نہیں ہو گی۔ ان کے بقول گزشتہ چار برسوں میں جو نقصان ہوا ہے اس کے ازالے میں وقت لگے گا۔
صدر بائیڈن کی جانب سے امیگریشن میں تبدیلیوں کے احکامات کو متعدد عدالتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پہلے ہفتے ہی ان کو ایک قانونی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ایک وفاقی جج نے غیر قانونی تارکینِ وطن کو ان کے ملکوں میں زبردستی واپس بھجوانے کے عمل کو 100 دن کے لیے روکنے کے حکم کو عارضی طور پر بلاک کر دیا تھا۔