سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکہ طالبان امن معاہدے کو، ’’خوش آئند‘‘ قرار دیا ہے، جس پر ہفتے کو دستخط ہوں گے۔ تاہم، انھوں نے کہا ہے کہ الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال کے حل کے بعد، امن مذاکرات کے وفد کا تعین قومی حکومت کرے گی۔
انھوں نے یہ بات وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے ساتھ جمعرات کے روز ایک خصوصی انٹرویو میں کہی ہے۔ حامد کرزئی نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ہفتے کو سمجھوتے پر دستخط کے 10 روز بعد بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو جائے گا۔
کرزئی نے کہا کہ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد، ہمیں امید ہے کہ بہت ہی جلد بین الافغان مکالمہ شروع ہو گا، جس میں تمام افغان مل بیٹھیں گے اور اپنے وطن میں پائیدار امن آئے گا۔
صدارتی انتخابات کے بعد سامنے آنے والے بحران سے متعلق سوال پر، سابق افغان صدر نے کہا کہ وہ نئے انتخابات کرانے کے خلاف ہیں، چونکہ، بقول ان کے، ’’انتخابات کے نتیجے میں حقیقی حکومت وجود میں نہیں آئے گی‘‘۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’ہم بحران کا سامنا کر رہے ہیں، اس لیے ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انتخابات نہ کرائے جائیں، کیونکہ اس سے ملک مزید بحرانی صورت حال سے دوچار ہو جائے گا اور لوگ ان میں ہرگز شرکت نہیں کریں گے‘‘۔
بقول ان کے، ’’بدقسمتی سے پہلے ہی تمام اندازے اور انتخابات سے وابستہ توقعات درست ثابت نہیں ہوئیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ افغان عوام اور قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ مل بیٹھیں تاکہ افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے بحران کا حل تلاش کیا جائے جو افغان عوام کو قابل قبول ہو۔ افغان قیادت کے حوالے سے، دیگر قائدین کے علاوہ کرزئی نے خاص طور پر ڈاکٹر اشرف غنی، ڈاکٹر عبداللہ اور حکمت یار کے نام لیے۔
ساتھ ہی، حامد کرزئی نے صدر غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے مابین مصالحت کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ یہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے چونکہ خدشہ اس بات کا ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ متوازی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ انتخابی مسئلہ حل ہو اور مفاہمت کی صورت نکلے، جس کے نتیجے میں سبھی کی تشفی ہو، جنھیں افغان عوام جائز اور تمام لوگوں کے نمائندے تسلیم کریں۔ پھر جو بھی تعینات ہوتا ہے وہ ٹھیک ہو گا اور ان کا خیرمقدم کیا جائے گا‘‘۔