دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کہتے ہیں کہ دہلی گیس چیمبر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ شاید درست کہتے ہیں۔ آج دہلی کا ہر شہری ایسا محسوس کر رہا ہے جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ وہ چند ساعتوں کا مہمان ہے۔ اسے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ اس کی آنکھیں جل رہی ہیں۔ آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے۔
گیت نگار شہریار نے ایک فلم کے لیے ایک غزل لکھی تھی جس کا مطلع تھا:
آنکھوں میں جلن سینے میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
آج اگر وہ زندہ ہوتے اور یہ کہتے کہ میں نے یہ شعر دہلی کی موجودہ فضا کے لیے لکھا تھا تو ہر شخص ان کی بات پر یقین کر لیتا۔
دہلی کی موجودہ فضائی آلودگی گزشتہ تین برسوں کے مقابلے میں سب سے اونچی سطح پر ہے۔ شہر کی بہت بڑی آبادی گھروں میں قید ہے اور جن کے سامنے باہر نکلنے کی مجبوری ہے ان کی اکثریت ماسک لگائے ہوئے نکل رہی ہے۔
لیکن ماسک مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اسے کسی اور طریقے سے حل کرنا ہو گا۔
اگر چہ دہلی و نواحی علاقوں میں منگل تک کے لیے اسکول بند کر دیے گئے ہیں کیونکہ اس زہریلی فضا کے سب سے زیادہ شکار معصوم بچے ہو رہے ہیں، لیکن بدھ کے روز سے پھر اسکول کھلیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہو گا۔
ایسا تو نہیں ہے کہ بدھ کے روز سے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ فضا صاف ہو جائے گی۔ کثافت اور گہری دھند کی چادر چھٹ جائے گی۔
وہ بھی کیا زمانہ تھا جب دہلی کی فضا بھی حیدرآباد، بنگلور اور دیگر شہروں کی مانند انتہائی صاف ستھری ہوا کرتی تھی۔
میں پہلی بار 1983 میں دہلی آیا تھا۔ بہت سکون تھا۔ آمد و رفت میں بہت آسانیاں تھیں۔ جینے کے لیے بہتر ماحول تھا۔ آبادی بھی کم تھی اور گاڑیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں تھی۔
لیکن اب میں غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ جب دہلی کا سنہرا دور نہیں بھی تھا تب بھی رہائش کے قابل ایک اچھا شہر تو تھا۔
اُس وقت سڑکیں خالی خالی رہتی تھیں۔ ٹریفک جام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلتی تھیں اور منی بسیں بھی۔ بسوں کی تعداد کم تھی تو سواریوں کی بھی تعداد کم تھی۔ لوگوں کے پاس وقت بھی رہتا تھا۔ کسی بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بسوں کا گھنٹوں انتظار بھی کیا جاتا تھا۔
کاریں بہت کم لوگوں کے پاس تھیں۔ جو کار لے لیتا وہ بڑا خوش نصیب اور امیر سمجھا جاتا تھا۔ آج تو ہر شخص کے پاس کار ہے۔
اِس وقت ہم جہاں رہائش پذیر ہیں یعنی جامعہ نگر کے علاقے میں، اُس وقت سب سے قریبی ٹریفک کی سرخ بتی پانچ کلو میٹر دور تھی۔ لیکن گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے سرخ بتیوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی اور آج قریبی ریڈ لائٹ محض ایک کلو میٹر دور ہے۔
گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کی متعدد وجوہات ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی وجہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
وقت کا پہیہ ایسا گھوما کہ وہ ساری پرانی باتیں خواب و خیال بن گئی ہیں۔ اہل دہلی نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انھیں ایک روز گیس چیمبر میں بند ہونا پڑے گا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دشمنوں کو گیس چیمبر میں بند کر کے مارا بھی گیا۔ لیکن اہل دہلی کا کہنا ہے کہ انہیں تو بغیر کسی جرم کے گیس چیمبر میں بند کر دیا گیا ہے۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ اس گیس چیمبر پر کوئی ڈھکنا نہیں ہے۔ یہ بالکل کھلا ہوا ہے پھر بھی بے حد خطرناک ہے۔
گاڑیوں کی بڑھتی تعداد نے زیادہ دھواں چھوڑنا شروع کر دیا۔ آج دہلی کی کسی بھی سڑک پر چلے جائیے دھواں ہی دھواں نظر آئے گا۔
پہلے ہم نے سنا بھی نہیں تھا کہ فصلوں کی کٹائی کے بعد کچھ حصے کھیتوں میں بچ رہتے ہیں۔ پہلے مزدور ہاتھوں سے فصلوں کی کٹائی کرتے تھے۔ لیکن پھر مشینیں آ گئیں۔ مشینیں رحمت بنیں تو زحمت بھی بن گئیں۔ ان سے کٹائی ہونے لگی تو کھیتوں میں ڈنٹھل بھی بچنے لگے۔
کاشتکاروں کو اور کچھ نہیں سوجھا ان ڈنٹھلوں سے نجات پانے کے لیے، تو انھوں نے انہیں وہیں جلانا شروع کر دیا۔ پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں یہ سلسلہ چل پڑا تو پھر پورے خطے کی فضائیں رفتہ رفتہ دھند سے بھر گئیں اور فضا پر ایک دبیز چادر سی تن گئی۔
یہ چادر اتنی دبیز اور موٹی ہے کہ سورج چھپ جاتا ہے۔ دھوپ نظر نہیں آتی۔ چند سو میٹر کے آگے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
اتوار کے روز تو بہت برا حال تھا۔ باہر تو باہر گھر کے اندر بھی رہنا دوبھر تھا۔ گھروں میں بھی آنکھیں جلتی رہیں، ان سے پانی آتا رہا اور سانس لینے میں دقت پیش آتی رہی۔
ہم نے ایسے کئی مریضوں سے، جو صرف نزلہ زکام سے متاثر ہیں، بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ان کے گلے میں شدید تکلیف ہے۔
دہلی میں فضائی آلودگی کے کئی اسباب ہیں۔ یہ اسباب دہلی کے اپنے بھی ہیں۔ لیکن آلودگی میں اضافے کا سہرا ان کاشتکاروں کے سر جاتا ہے جو بدرجہ مجبوری ڈنٹھلوں کو جلا رہے ہیں۔
پنجاب اور ہریانہ میں 26 لاکھ کسان ہیں۔ مرکزی حکومت نے ان کو جدید ترین مشینیں دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اب تک صرف 63 ہزار مشینیں ہی حکومت دے پائی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا پنجاب اور ہریانہ حکومتوں کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھی اس صورت حال کے لیے ذمہ دار گردانتے ہیں۔
بہر حال کسی دل جلے شاعر نے کہا تھا کہ ’جو دل کا حال ہے وہی دہلی کا حال ہے۔‘
دل کو تو منایا بھی جا سکتا ہے، تھپکی دے کر سلایا بھی جا سکتا ہے لیکن دہلی کی فضاؤں پر چھائی ہوئی خطرناک آلودگی کو کیسے ہٹایا جائے، اس کے بارے میں نہ تو دہلی کی حکومت کو کچھ سوجھ رہا ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت کو۔ اسی لیے دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
اس الزام اور جوابی الزام کے درمیان دہلی اور دہلی والوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ اسی لیے عدالت عظمیٰ کو سامنے آنا پڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا عدالتی حکم حکومتوں کو مؤثر اقدامات کے لیے مجبور کر پاتا ہے؟