خیبر پختونخوا اسمبلی میں قبائلی اضلاع کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں پر سیاسی جماعتوں نے دیگر شہروں کی رہائشی خواتین کو امیدوار نامزد کیا ہے۔
جمعیت علماءِ اسلام (ف) نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں قبائلی اضلاع کے لیے خواتین کی مخصوص نشست پر اُن خاتون کو نامزد کیا ہے جن کا تعلق قبائلی اضلاع سے نہیں ہے، جبکہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی نامزد کردہ خاتون امیدوار کا تعلق گو کہ قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان سے ہے، لیکن وہ اہلِ خانہ کے ساتھ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔
نعیمہ کشور کون ہیں؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی کے مطابق جمعیت علماءِ اسلام (ف) نے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ملنے والی صوبائی اسمبلی کی ایک مخصوص نشست پر مردان کے قصبے گوجر گڑھی سے تعلق رکھنے والی نعیمہ کشور کو نامزد کیا ہے۔
نعیمہ کشور 2002 کے عام انتخابات میں پہلی بار خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر منتخب ہوئی تھیں۔
تاہم، 2008 میں اختلاف کے باعث جب متحدہ مجلس عمل کا وجود ختم ہو گیا تو وہ ایک بار پھر جمعیت علماءِ اسلام (ف) کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست پر ایوان کی رکن بنیں۔
2013 کے عام انتخابات میں وہ خواتین کی مخصوص نشست پر جمعیت علماءِ اسلام کے ٹکٹ پر پہلی بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔
قومی اسمبلی کے ایوان میں حاضری اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کے لحاظ سے ان کی کارکردگی نمایاں رہی تھی۔
پارلیمان میں نمائندگی کے علاوہ نعیمہ کشور پچھلے کئی برسوں سے جمعیت علماءِ اسلام (ف) کے شعبۂ خواتین کی سربراہ بھی ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے ایک صوبائی عہدیدار نے وائس آف امریکہ کے رابطے پر نعیمہ کشور کی نامزدگی کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا۔
البتہ، قبائلی اضلاع میں پارٹی کے سرکردہ رہنما مفتی اعجاز شنواری نے اس نامزدگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ نعیمہ کشور نے پارٹی کو باقاعدہ درخواست دی تھی اور اپنا تعلق جنوبی وزیرستان سے ظاہر کیا تھا۔
ان کے بقول، نعیمہ کشور ایک تجربہ کار رکن پارلیمان ہیں۔ لہذا، نئی خاتون کی بجائے پارٹی نے انہی کو نامزد کیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان نے 'وی او اے' کے رابطے پر بتایا ہے کہ 18 اپریل 2019 کو جاری کردہ رولز کے مطابق صرف قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ہی یہاں کی مخصوص نشستوں پر نامزد ہو سکتی ہیں۔
ان کے بقول، نعیمہ کشور نے اپنا ووٹ پہلے ہی جنوبی وزیرستان کے ایک گاؤں منتقل کرایا تھا اور اس بنیاد پر ان کی نامزدگی الیکشن رولز کے مطابق درست ہے۔
تاہم، قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات بالخصوص خواتین نے نعیمہ کشور کی نامزدگی پر اعتراض کیا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی ایک مقامی رہنما وفا وزیر نے 'وی او اے' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلی بار قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے ہیں اور خواتین کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ قبائلی علاقوں کی ہی خواتین کو مخصوص نشستوں پر نامزد کیا جائے، تاکہ یہاں کی خواتین کے مسائل اجاگر ہونے کے ساتھ ساتھ حل بھی ہو سکیں۔
ضلع خیبر کی سول سوسائٹی سے وابستہ منظور آفریدی نے بھی جمعیت علماءِ اسلام کی جانب سے اس نامزدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے قبائلی خواتین کی حق تلفی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف جے یو آئی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو قبائلی عوام کو نمائندگی دینا چاہیے۔
انہوں نے جے یو آئی (ف) سے نعیمہ کشور کی نامزدگی کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی بھی اپیل کی ہے۔
20 جولائی 2019 کو قبائلی اضلاع میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو ان اضلاع سے خواتین کے لیے مخصوص چار میں سے دو نشستوں پر نامزدگی کا اختیار ملا ہے۔
تحریکِ انصاف کی جانب سے ان دو میں سے ایک نشست پر نامزدگی حاصل کرنے کرنے والی خاتون انیتا محسود کا تعلق تو جنوبی وزیرستان سے بتایا جاتا ہے مگر وہ خاندان سمیت گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر نامزد کردہ خاتون بصیرت شنواری کا تعلق ضلع خیبر کے سرحدی قصبے لنڈی کوتل سے ہے۔ مگر ان کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہ نہ صرف خاندان سمیت پشاور میں رہائش پذیر ہیں بلکہ ان کی اپنی پیدائش اور تعلیم و تربیت بھی پشاور میں ہی ہوئی ہے۔
متناسب نمائندگی کی بنیاد پر غیر مسلم اقلیتوں کے لیے مخصوص ایک نشست پر پاکستان تحریکِ انصاف نے ولسن وزیر کو نامزد کیا ہے جس پر مسیحی برادری کے بعض افراد نے اعتراضات کیے ہیں۔