نئی زبانوں سمیت اور بہت ساری چیزیں سیکھنے میں بچے بڑوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑوں کے دماغ’ بھرے‘ ہوئے ہوتے ہیں کیوں کہ وہ پرانی باتوں کو یاد رکھتے ہیں اور یوں اس میں نئی معلومات کے لئے جگہ نہیں رہتی۔۔۔ یہ کہنا ہے امریکی جریدے” سائنٹیفک امریکن مائنڈ“ کا۔
جریدہ کہتا ہے کہ کوئی بات یا چیز یاد کرنے کے لئے پرانی یادوں کا ختم ہونا ضروری ہے اور حالیہ تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ بڑوں کے دماغ میں ایسے لحمیات ہوتے ہیں جو بڑوں کو پرانی باتیں بھولنے نہیں دیتے۔
”سائنٹیفک امریکن مائنڈ“ کے مطابق جب بھی انسان کچھ نیا سیکھتا ہے تو اس کے دماغ کے خلیوں میں کچھ نئے کنکشن پیدا ہوتے ہیں اور جب خلیوں کے بیچ یہ رابطے کمزور ہوجاتے ہیں تو یاداشت کمزور ہو جاتی ہے ۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے بیکار معلومات نئی معلومات کے حق میں’ دستبردار‘ ہوجاتی ہیں۔
کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں نفسیات اور اعصابیات کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ” عمر بڑھنے کے ساتھ فوری اور قریب کی یاداشت کمزور ہو جاتی ہے جبکہ پرانی یاداشت پھر بھی برقرار رہتی ہے ، یوں سمجھئے کہ کمپیوٹر کا ہارڈ وئیر ٹھیک کام کرتا رہتا ہے لیکن سوفٹ وئیر خراب ہو جاتا ہے اور اس لئے بزرگوں کو نئی چیز جیسے کہ موبائل فون کا استعمال سکھائیں تو وہ نہیں سیکھ پاتے لیکن پینسٹھ کی جنگ کی تفصیلات انھیں یاد ہوتی ہیں۔“
”سائنٹیفک امریکن مائنڈ“ کے مطابق پرانی اور بے کار یادوں کا بھلا دینا یاداشت اور جذباتی صحت دونوں کے لئے ضروری ہے، جریدہ کہتا ہے کہ کسی پرانی یاد کو بھلانے کے لئے کسی فالتو پرانی یاد کی ہر سوچ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے یا پھر کوئی فالتو پرانی یاد آئے تو اپنا دھیان دوسری مطلوبہ معلومات کی طرف کر دینا چاہئے جسے انسان یاد کرنا چاہ رہا ہو۔
جریدہ کہتا ہے کہ کوئی بات یا چیز یاد کرنے کے لئے پرانی یادوں کا ختم ہونا ضروری ہے اور حالیہ تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ بڑوں کے دماغ میں ایسے لحمیات ہوتے ہیں جو بڑوں کو پرانی باتیں بھولنے نہیں دیتے۔
”سائنٹیفک امریکن مائنڈ“ کے مطابق جب بھی انسان کچھ نیا سیکھتا ہے تو اس کے دماغ کے خلیوں میں کچھ نئے کنکشن پیدا ہوتے ہیں اور جب خلیوں کے بیچ یہ رابطے کمزور ہوجاتے ہیں تو یاداشت کمزور ہو جاتی ہے ۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے بیکار معلومات نئی معلومات کے حق میں’ دستبردار‘ ہوجاتی ہیں۔
کراچی کے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر میں نفسیات اور اعصابیات کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ” عمر بڑھنے کے ساتھ فوری اور قریب کی یاداشت کمزور ہو جاتی ہے جبکہ پرانی یاداشت پھر بھی برقرار رہتی ہے ، یوں سمجھئے کہ کمپیوٹر کا ہارڈ وئیر ٹھیک کام کرتا رہتا ہے لیکن سوفٹ وئیر خراب ہو جاتا ہے اور اس لئے بزرگوں کو نئی چیز جیسے کہ موبائل فون کا استعمال سکھائیں تو وہ نہیں سیکھ پاتے لیکن پینسٹھ کی جنگ کی تفصیلات انھیں یاد ہوتی ہیں۔“
”سائنٹیفک امریکن مائنڈ“ کے مطابق پرانی اور بے کار یادوں کا بھلا دینا یاداشت اور جذباتی صحت دونوں کے لئے ضروری ہے، جریدہ کہتا ہے کہ کسی پرانی یاد کو بھلانے کے لئے کسی فالتو پرانی یاد کی ہر سوچ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے یا پھر کوئی فالتو پرانی یاد آئے تو اپنا دھیان دوسری مطلوبہ معلومات کی طرف کر دینا چاہئے جسے انسان یاد کرنا چاہ رہا ہو۔