امریکہ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر آگے بڑھے گا۔ امریکہ پاکستان میں آزادیٴ اظہارِ رائے کی حمایت اور سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر پابندی کی مذمت کرتا ہے۔
حکمران اتحاد کو بڑے فیصلے کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت چاہیے۔ 336 اراکین کے ایوان میں حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت کے لیے درکار 224 اراکین کا تعداد چاہیے۔ اس وقت حکمران اتحاد میں 8 پارٹیاں شامل ہیں، جن کے قومی اسمبلی میں مجموعی طور اراکین کی تعداد 230 تک پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کو مہنگائی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے اپنے سفر کا آغاز کردیا ہے۔ ملک کی نئی منتخب حکومت سے عوام کو کیا توقعات ہیں؟ جانتے ہیں ارحم خان کی اس ویڈیو میں۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے کے مطابق مسلح افواج نے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے لیے عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا اور افواجِ پاکستان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کوٹے کی مستحق نہیں ہے۔
قومی اسمبلی کے پچھلے دو اجلاسوں سے تیسرے اجلاس میں یہ بھی مختلف تھا کہ اس اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین بھی حکمتِ عملی بنا کر اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے عمر ایوب کا کہنا تھا کہ نئی حکومت پی ڈیم ایم حکومت کا تسلسل ہے جس کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد نو منتخب پارلیمان سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف وزیرِاعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ (ن) لیگ کے قائد اور تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف وزیراعظم کیوں نہیں بنے؟ جانیے نوید نسیم کی اس رپورٹ میں۔
شہباز شریف نے 15ویں قومی اسمبلی کی مدت مکمل ہونے سے چند روز قبل اسمبلی تحلیل کردی تھی جس کا مقصد 60 روز کے بجائے دنوں میں انتخابات منعقد کرانا تھا۔
شہباز شریف کو 201 جب کہ اُن کے مدِمقابل سنی اتحاد کونسل (پی ٹی آئی) کے عمر ایوب کو 92 ووٹ ملے۔
مقدمے میں تشدد پر اکسانے، امن وامان کی صورتِ حال خراب کرنے اور خاتون کی جان کو خطرہ میں ڈالنے والی دفعات شامل ہیں۔
امریکی قانون سازوں کی طرف سے یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جب پاکستان میں فروروی کو ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر سوال اٹھاے جارہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں