حکام کا کہنا ہے کہ پولیس نے گاڑیوں کو روکنے کے لیے سڑک پر پتھر رکھے تھے جب کہ عام طور پر کینیا میں پولیس ناکہ بندی کے لیے رکاوٹیں یا بیریئرز کا استعمال کرتی ہے اور لوگ ان رکاوٹوں پر اپنی گاڑی روک لیتے ہیں۔
عمران خان پر وزیرآباد میں ہونے والے حملے کا مقدمہ 24 گھنٹوں میں درج کرنے کا حکم دے دیا۔ مقدمہ درج نہ ہونے پر عدالت نے سوموٹو لینے کا عندیہ دیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان شوکت خانم اسپتال سے لاہور میں ان کے گھر منتقل کردیا گیا ہے۔ گھر منتقلی سے قبل اسپتال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے دو دن بعد منگل سے ایک بار پھر لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا البتہ وہ خود لانگ مارچ میں راولپنڈی سے آگے اس کی قیادت کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے حوالے سے کہنا تھا کہ ان کی میڈیکل رپورٹ میں تضادات ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کی گولی ان کے قریب سے گزری بھی ہے یا نہیں۔
لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے الزامات کی پوری تحقیقات کے لیے فل کورٹ کا کمیشن بنائے جو عمران خان کے الزامات کی تحقیقات کرے۔
پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر نے فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے بیان پر کہا ہے کہ آئی ایس پی آر عمران خان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کبھی اداروں کے خلاف بات نہیں کی۔ انہوں نے در حقیقت عمران خان نے ہمیشہ اداروں کی مضبوطی کی ضرورت پر آواز اٹھائی ہے۔
اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے چھٹے روز گھکڑ منڈی میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ وہ کچھ سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔
واٹس ایپ گروپ میں صدف کی تصویر کے ساتھ دو جملوں میں درج تھا کہ "صحافی صدف نعیم عمران خان کے کنٹینر تلے آگئیں اور اسپتال لے جانے سے پہلے ہی دم توڑ چُکی تھیں۔" یہ خبر مجھ سمیت بہت سے صحافیوں کے لیے چونکا دینے والی تھی۔
شاہدرہ لاہور میں لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے آئی ایس آئی کے میجر جنرل فیصل اور بریگیڈیئر فہیم کو 'وحشی' قرار دے دیا۔
’’میں غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہوں جن کی نگرانی اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ کر رہا ہو۔ ایسی صورت میں ، میں بلاشبہ مکمل تعاون کروں گا کہ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے چھپا سچ سامنے لایا جا سکے۔ اور اس کے ذمہ داروں کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘‘
اس قتل پر جہاں کئی سوالات اٹھ رہے ہیں وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ آخر کینیا میں ارشد شریف کے میزبان وقار احمد اور خرم احمد کون تھے اور وہ کیا کرتے ہیں؟ اور قتل کی تفتیش میں ان سے اب تک کیا معلومات پولیس نے حاصل کی ہیں؟
پاکستانی صحافی ارشد شریف کی ہلاکت کے کیس میں کینیا میں ہونے والی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟ اس بارے میں جانتے ہیں نیروبی میں وائس آف امریکہ کےنامہ نگار محمد یوسف سے۔
مزید لوڈ کریں
No media source currently available