کوئٹہ کے نواحی علاقے بلیلی میں پولیو ورکرز کی سیکیورٹی کے لیے جانے والی پولیس کی گاڑی پر بدھ کو خودکش حملہ ہوا ہے۔ اس حملے میں اب تک ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے ہیں۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
بلوچستان پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) غلام اظفر مہیسر کے مطابق رکشے میں سوار خودکش بمبار نے پولیس کے ٹرک سے اپنے رکشے کو ٹکرا دیا جس کی زد میں آ کر عام شہریوں کی دو گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔
حکام کا کہنا ہے کہ چمن اور باب دوستی پر سیکیورٹی کے انتظامات کو ایف سی نے مزید سخت کر دیا ہے۔ پاکستان سے افغانستان جانے والوں اور وہاں سے آنے والوں کی چیکنگ کی جا رہی ہے۔
ریلوے سروس بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تاحال بحال نہیں ہوسکی اور جعفر ایکسپریس کو کوئٹہ کے بجائے مچھ سے پشاور روانہ کیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکام نے دونوں جانب سے فائر بندی پر زور دیا ہے جب کہ پاکستانی حکام نے سیکیورٹی فورسز پرفائرنگ کرنے والے افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک خاتون کی ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے جس میں وہ بولان میں مبینہ فوجی آپریشن اور اس کے بعد خواتین کو جبری طور پر حراست میں لینے کی تفصیلات بتا رہی ہیں۔
بلوچستان میں سیلاب کے بعد کوئٹہ کا ریلوے اسٹیشن ویران پڑا ہے۔ ریلوے ٹریک خراب ہونے کی وجہ سے بلوچستان جانے والی ٹرینیں گزشتہ دو ماہ سے بند ہیں۔ اس سے مسافر تو پریشان ہیں ہی لیکن اسٹیشن پر روزگار کمانے والے دکان دار، قلی اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے مالی حالات بھی بگڑ گئے ہیں۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
وسیم تابش کے خاندانی ذرائع نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں گزشتہ سال نو جون کو خضدار کے علی اسپتال سے سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتا کیا تھا۔ ان کے والدین نے الزام عائد کیا کہ ان کے لاپتا بیٹے کو بلوچستان کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا ہے۔
ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ الندور میں قائم نجی اسکول کلکشان کو نامعلوم افراد نے پیر اور منگل کی درمیانی شب نذر آتش کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا تھا جب کہ علاقہ مکین واقعے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی) بلوچستان نے ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایک ماہ کے دوران مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں38 افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا ہے۔
شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے خاران میں سابق جج کو حملہ کر کے ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس خاران، نذیر کرد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سابق چیف جسٹس سابق چیف جسٹس پر قاتلانہ حملہ اس وقت ہوا جب وہ مسجد میں عشا کی نماز ادا کرر ہے تھے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لاشوں کی برآمدگی کا نوٹس لے کر واقعے کی تحقیقات کرے اور لاشوں کے شناخت کے لیے اقدام اٹھائے اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے تاکہ واضح ہو سکے کہ یہ کن کی لاشیں ہیں۔
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں فوج کا ایک ہیلی کاپٹر فلائنگ مشن کے دوران گر کر تباہ ہوگیا، جس میں دو پائلٹوں سمیت چھ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع صحبت پور میں کئی روز گزرنے کے باوجود بھی سیلابی پانی لوگوں کے گھروں اور فصلوں میں کھڑا ہے۔ متاثرین سڑک کنارے کھلے آسمان تلے پناہ لیے ہوئے ہیں جو چارپائیوں اور عارضی خیموں میں دن رات گزار رہے ہیں۔ تفصیلات مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
سندھ کے بعد سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ بلوچستان کے کئی اضلاع زیرِ آب آنے سے صوبے کا باقی ملک سے رابطہ بھی منقطع ہو گیا تھا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو جانوروں اور حشرات الارض سے خطرات لاحق ہیں۔ کہیں مچھروں کی بہتات ہے تو کچھ علاقوں میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ مرتضیٰ زہری بلوچستان کے علاقے ڈیرہ الہٰ یار کی صورتِ حال بتا رہے ہیں جہاں اسپتال میں روز سانپ کے ڈسے ہوئے مریض لائے جا رہے ہیں۔
نصیر آباد، جعفر آباد اور ڈیرہ الہٰ یار کے علاقوں کو بلوچستان کی گرین بیلٹ کہا جاتا ہے۔ سیلاب نے ان علاقوں میں کتنی تباہی مچائی ہے اور لوگوں کے کیا نقصانات ہوئے ہیں؟ جانتے ہیں مرتضیٰ زہری سے۔
بلوچستان کا دیگر صوبوں سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے متعدد علاقوں میں اشیا خور و نوش کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ حکام دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ عارضی طور پر بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں البتہ اب تک مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت بحال نہیں ہو سکی ہے۔
بلوچستان میں سیلاب سے 34 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔ رواں مون سون سیزن میں 200 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ایک طرف جہاں شہریوں کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہیں صوبے میں انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان کی صورتِ حال بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری اس رپورٹ میں۔
بلوچستان میں مجموعی طور پر 26 ہزار سے زائد مکانات کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے جب کہ بارشوں سے 710 کلو میٹر پر مشتمل شاہراہیں متاثر ہوئی ہیں اور سیلاب کے باعث 18 پل بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بارشوں سے 1 لاکھ 7 ہزار سے زائد مویشی بھی مارے گئے ہیں۔
مزید لوڈ کریں