Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی سابق حکومت میں شامل جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ یہ تینوں جماعتیں باہمی مشورے سے کریں گی۔
دھماکا آئی جی مشتاق سکھیرکے گھر کے قریب ہوا تاہم وہ محفوظ رہے۔
پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں تشد د کے واقعات میں کم از کم 18 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے ہیں۔
نو تال کے قر یب دو روز پہلے گرائے گئے دو کھمبوں کی مر مت کا کام بدھ کو حکومت کی طر ف سے مکمل سیکورٹی کی فراہمی کے بعد شروع کردیا گیا جو جمعرات کی رات تک مکمل ہو گ
بولان کے ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ جرائم پیشہ عناصر کا یہ گروپ سندھ اور بلوچستان میں قتل، اغوا اور دیگر وارداتوں میں ملوث تھا۔
سیکرٹری داخلہ بلوچستان کا کہنا تھا عوام کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور خصوصاً انتخابات کے دوران ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے صوبے کے تمام 30 اضلاع میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
ماشکیل کی دکانوں میں زیادہ سامان حتیٰ کہ اشیائے خوردنی بھی ایران سے لایا جاتا تھا جن کی قیمتیں پاکستانی اشیاء سے 20 فیصد کم ہوا کرتی تھیں۔
حکام کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ہلاکتیں بلوچستان کے دور افتادہ علاقے ماشکیل میں ہوئیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی سربراہ ثناء اللہ زہری خود تو اس حملے میں محفوظ رہے لیکن ان کا بیٹا، بھائی اور بھتیجا جانبر نہ ہو سکے۔
نگراں وزیراعظم ہزار خان کھوسو نے کہا ہے کہ صوبے میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں ہر شہری بلا خوف خطر اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکے۔
سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کے امید لے کر واپس آئے ہیں اور صوبے کے مفادات کے لیے اگر کسی بھی سیاسی جماعت نے ان سے اتحاد کرنا چاہا تو وہ اتحاد کر لیں گے۔
ایف سی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ رواں سال کے اولین دو ماہ میں ہونے والے دو بڑے بم دھماکوں کے علاوہ پرتشدد کارروائیوں اور صوبے میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ صوبہ بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں سے کہیں زیادہ اہم ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ انھیں ایک موقع دیا جائے تاکہ ووٹ کے ذریعے پرامن طریقے سے ملک کو تبدیل کیا جاسکے۔
یہ بم دھماکا ضلع جعفر آباد کے بس اڈے میں ہوا جہاں سڑک کنارے نصب بارودی مواد میں ریموٹ کنٹرول سے دھماکا کیا گیا۔
صوبائی حکومت کے ترجمان علی مدد جتک نے کہا کہ اسلم رئیسانی کو اسملی میں عددی برتری حاصل ہے اور بر سر اقتدار جماعت کا کو ئی بھی رکن حزب اختلاف میں نہیں بیٹھ سکتا۔
بچوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں بم دھماکے کیے ہیں جس کے لیے اُنھیں ایک دھماکا کرنے پر تین سے پانچ ہزار روپے تک دیے جاتے تھے ۔
پسنی کے قریب پیش آنے والے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کو کوسٹل ہائی وے پر مرمت کے کام کے لیے لایا گیا تھا۔
بعض لواحقین نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا اور ایک مرکزی شاہراہ پر دھرنا دینے کی کوشش کی لیکن پولیس نے مظاہرین کو منتشتر کردیا۔
وزیراعظم نے کوئٹہ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ایک چھ رکنی پارلیمانی وفد تشکیل دیا تھا جس نے شیعہ ہزارہ برادری کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے دیر پا امن کے لیے بھی مشاورت کی۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہفتے کو ہونے والے بم دھماکے میں 89 افراد کی ہلاکت کے بعد ہزارہ برادری کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے۔
مزید لوڈ کریں