شمالی وزیرستان میں اتوار کو ہونے والے حملے میں کم از کم تین مبینہ عسکریت پسند ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔
ابتدائی مرحلے میں اس فیصلے کا اطلاق صرف پشاور شہر میں کیا جائے گا جہاں اُن کے بقول اندازاً چار لاکھ افغان غیرقانونی طور پر یا پھر اندراج کے بغیر آباد ہیں۔
فرار ہونے والے تمام قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی چار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں
صوبائی حکام نے بتایا ہے کہ فرار ہونے والوں میں بڑی تعداد مشتبہ طالبان شدت پسندوں کی ہےجن میں کم از کم 20 انتہائی مطلوب قیدی بھی شامل ہیں.
عسکریت پسندوں نے اپر اورکزئی ایجنسی کے خادیزئی گاؤں میں فرنٹئیر کور کی ایک چوکی پر اچانک حملہ کردیا جس کے بعد علاقے میں شدید لڑائی شروع ہوگئی اور جوابی کاورائی میں متعدد جنگجوؤں کو ہلاک کردیا گیا۔
امریکی سفیر کیمرون منٹر کے بقول ان کا ملک پاکستانی پارلیمان میں پیش کی گئی سفارشات پر بحث مکمل ہونے کا منتظر ہے۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران شدت پسندوں نے پشاور کے مضافات کے علاوہ قبائلی علاقوں کے قریب واقع اضلاع میں 98 اسکولوں کو بم دھماکوں سے تباہ کیا ہے
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے معاون پولیٹیکل ایجنٹ جرگے کے دوران قاتلانہ حملے میں ہلاک
سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں نو عسکریت پسند بھی مارے گئے۔
صوبے میں برسراقتدار عوامی نیشنل پارٹی کے ایک جلسے کے اختتام کے بعد شرکاء واپس جا رہے تھے کہ پنڈال کے باہر ایک موٹر سائیکل میں نصب بم میں دھماکا ہوا۔
ایجنسی کے انتظامی مرکز پارا چنار کے ایک مصروف بازار میں ہونے والے دھماکے 40 افراد زخمی بھی ہوئے اور املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
پشاور میں نشے کے لیے سرنج کا استعمال کرنے والوں میں سے 20 فیصد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بچنے کے لیے شدت پسندوں نے قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ اضلاع میں پناگاہیں بنا رکھی ہے۔
گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کی گئی جوابی کارروائی میں حملے کو پسپا کردیا گیا جس میں 34 جنگجوؤں کو ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔
تمام فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ فاٹا کی پسماندگی دور کرنے اور اقتصادی بہتری کے بغیر وہاں شدت پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوں گی۔
انسانی حقوق اور صحافتی تنظمیوں نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث افراد کی شناخت کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مکرم خان عاطف کا تعلق مہمند ایجنسی سے تھا لیکن وہاں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث وہ کچھ عرصہ قبل شب قدر منتقل ہوگئے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ضلعی پولیس افسر کے دفتر پر حملہ کرنے والوں میں سے تین پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔ دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد ہلاک جب کہ چاروں حملہ آور بھی مارے گئے
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ حملے کا ہدف حکومت کے حامی زاخا خیل قبائلی لشکر کے ارکان تھے جو پیڑول پمپ پر اپنی گاڑیوں میں ایندھن بھروا رہے تھے۔
خیبر پختون خواہ میں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر نادر نے بتایا کہ صوبائی حکومت کے حفاظتی اقدامات ناکافی ہیں۔
مزید لوڈ کریں