حکام نے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سمیت درجنوں کارکنوں اور عہدے داروں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ دوسری جانب منظور پشتین نے ہر حال میں 11 اکتوبر کو جرگہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سید اختر علی شاہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ بلکہ ریاست کو اُن عوامل کو سمجھنا ہو گا جس کی وجہ سے یہ لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور بظاہر ریاست سے مایوس ہو چکے ہیں۔
وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم پر ایک ایسے وقت پابندی عائد کی ہے جب آئندہ ہفتے اس کے زیر اہتمام پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلعے خیبر میں پختون جرگہ منعقد ہونے والا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پانچ عسکریت پسندوں کو جوابی کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
پشتون تحفظ تحریک 11 اکتوبر کو قبائلی علاقے جمرود میں جرگے کرنے جا رہی ہے۔ پولیس کی جانب سے جرگے کے لیے لگائے گئے کیمپس اکھاڑنے کے واقعات کے بعد پی ٹیم ایم کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
کرم کے مختلف علاقوں میں چار مقامات پر متحارب شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جمعے کے روز بھی جاری ہے۔
انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) نے واقعے کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا ہے۔ تاہم کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلعے کرم میں ایک بار پھر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے ہیں۔ فریقین کے درمیان جدید خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کے تبادلے میں متعدد افراد کے نشانہ بننے کی اطلاعات ہیں۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کے مطابق جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب سات دہشت گردوں نے شمالی وزیرستان کے علاقے اسپن وام میں افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی جنہیں سیکیورٹی فورسز نے گھیرے میں لے لیا۔
احتجاجی پولیس اہلکاروں نے فوج کو لکی مروت سے نکلنے کے لیے چھ روز کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ اگر مقررہ ڈیڈ لائن تک آرمی علاقے سے نہ نکلی تو پولیس اہلکار دوبارہ احتجاج شروع کر دیں گے۔
پیر کو جنوبی وزیرستان میں وانا بازار کے قریب پولیس کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار پولیس اہلکار اور ان کے ساتھ موجود پولیو رضاکار زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں راہ گیر بھی شامل ہیں۔
جمعے کو علی الصبح ہونے والا یہ حملہ لگ بھگ پانچ گھنٹے تک جاری رہا جسے حکام کے مطابق پسپا کر کے دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
پشاور میں ٹھیکیدار کو حراست میں لینے کے دوران مزاحمت پر لوگوں نے ایک سی ٹی ڈی اہلکار کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ ٹھیکیدار پیر محمد خان نے پشاور کے تھانہ ٹاؤن میں اپنے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا ہے۔
ڈی آئی خان سے اغوا ہونے والے پاکستان کی فوج کے لیفٹننٹ کرنل، ان کے اسسٹنٹ کمشنر بھائی اور خاندان کے دیگر افراد قبائلی جرگے کی کوشش سے ٹی ٹی پی کی تحویل سے بازیاب ہو گئے ہیں۔
میران شاہ میں مبینہ عسکریت پسندوں نے نامعلوم سمت سے کینٹ کے علاقے میں راکٹ داغا جو وہاں قائم ہیلی پیڈ پر جا لگا۔ حکام نے راکٹ حملے میں دو سیکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
باوثوق ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اغواکار جن کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) گنڈاپور گروپ سے ہے اپنے 20 ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
لیفٹیننٹ کرنل محمد خالد امیر خان گنڈا پور، کنٹونمنٹ بورڈ کے افسر آصف امیر خان گنڈا پور اور نادرا کے ملازم فہد امیر خان گنڈا پور والد کی وفات کے سلسلے میں تحصیل کولاچی آئے تھے۔
شکیل خان نے از خود پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران اس مالیاتی اسکینڈل کے بارے میں بتایا تھا۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ کمیونی کیشن اینڈ ورکس شکیل خان کی برطرفی پر ان کے قریبی ساتھی اور بعض پارٹی رہنماؤں نے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔
مزید لوڈ کریں