امریکہ کے افغانستان کے لیے سابق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کا پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے حالیہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ کسی شخص یا ملک کے لیے لابنگ نہیں کرتے اور نہ کسی کے ایجنٹ ہیں۔
زلمے خلیل زاد کا اتوار کوایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہنا تھا کہ وہ صرف پاکستان کے بحران پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جو کہ بد قسمتی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
آصف زرداری نے نجی نشریاتی ادارے ’جیو نیوز‘کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد تنخواہ دار آدمی ہیں۔ کسی لابنگ فرم نے ان کی خدمات حاصل کی ہوں گی، اسی لیے وہ عمران خان کی حمایت کر رہے ہیں۔
آصف زرداری کے بیان کے جواب میں زلمے خلیل زاد نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے اس صورتِ حال میں تجویز دی ہے کہ کیا کرنا چاہیے۔آصف زرادری کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کو سب سے پہلے رکھنا چاہیے اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی وراثت کا احترام کرنا چاہیے تاکہ ایسی تباہی کو روکا جا سکے جو کہ 22 کروڑ افراد کو نقصان دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کے بر عکس پاکستانی عوام بیرون ملک پر تعیش گھروں کے مالک نہیں جہاں وہ بھاگ سکیں گے۔
Responding to Pakistan%27s "Mr. 10 Percent": I do not lobby for anyone or any country and am no one%27s agent. I have shared my sincere concern about Pakistan%27s triple crisis, which unfortunately is intensifying, and have suggested what should be done. "Mr. Ten Percent" should put…
— Zalmay Khalilzad (@realZalmayMK) April 15, 2023
زلمے خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے سیاسی رہنماؤں کو قانون کی حکمرانی کا عہد کرنا چاہیے اور سپریم کورٹ کو تقسیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے بقول اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ پچھلے ماہ 23 مارچ کو بھی خلیل زاد نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی' تباہ کن' روش کو تبدیل کریں۔
سابق امریکی سفارت کار خلیل زاد نے ماہِ رمضان میں اسلامی ممالک سے غور وفکر کرنے پر زوردیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں سول اور فوجی قیادت اپنے ملک کی صورتِ حال پر غور کر سکتے ہیں جو ان کے بقول ایک تباہ کن راستے پر ہے۔
خلیل زاد نے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو یہ مشور ہ بھی دیا تھا کہ انہیں اپنی ذمے داریوں کے تحت اور اپنے عوام کے مفاد میں اپنا راستہ تبدیل کرنا چاہیے۔
Happy Ramazan. Ramazan Mubarak. Ramadan Kareem. Ramadan is intended to be a time of reflection and kindness. We can only hope that the leaders of Islamic countries will use this special period for that purpose. In Pakistan, civil and military leaders might ponder the state of…
— Zalmay Khalilzad (@realZalmayMK) March 23, 2023
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ لاہور میں عمران خان کہ رہائش گاہ کے باہر پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان جھڑپوں کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماؤں نے تحریک انصاف پر پابندی لگانے کے بیانات دیے تھے۔
انہی قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکہ کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے 22 مارچ کو سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ جس پر حکومتی اتحاد کا کنٹرول ہے، آئندہ چند روز میں پی ٹی آئی پر پابندی لگا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ 15مارچ کو پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جو اگلے روز بھی جاری رہیں۔ پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے جب کہ واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا جب کہ لاٹھی چارج بھی ہوا۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
There are indications that Pakistan%27s parliament, which is controlled by the governing coalition, might well ask the Supreme Court to disqualify Imran Khan from running for election and even prohibit PTI in the next few days.[Thread]
— Zalmay Khalilzad (@realZalmayMK) March 21, 2023
اس سے قبل 14 مارچ کو بھی انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو پاکستان میں سیاسی بحران مزید بڑھے گا ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حکومت کو جون میں ملک بھر میں انتخابات کرنے کی تجویز بھی دی تھی۔
خلیل زاد نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت عمران خان کو اپنا سب سے بڑا دُشمن بنا رہی ہے اور انہیں نااہل قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔
عمران خان کی امریکی قانون سازوں کے ساتھ رابطوں میں تیزی
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے گزشتہ برس اُن کی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر عائد کرنے اور پھر حالیہ عرصے میں واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بیانیے کے بعد امریکی قانون سازوں کے ساتھ اُن کے رابطوں میں تیزی آئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک ماہ کے دوران چار امریکی قانون سازوں نے عمران خان سے رابطہ کیا ہے۔
ان رابطوں میں تیزی ایسے وقت میں آئی ہے جب پاکستان میں حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) تحریکِ انصاف پر یہ الزام عائد کر رہا ہے کہ امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمے دار سمجھنے والے عمران خان اب امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی کانگریس کے رُکن بریڈ شرمین نے وائس آف امریکہ کی صبا شاہ خان سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے اُن سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کہا ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف نہیں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکہ پر عائد کیا تھا، حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ کیوں کہ کانگریس کی مختلف سماعتوں کے دوران بھی ایسا کوئی شائبہ نہیں ملا کہ امریکہ نے اس حوالے سے کوئی کردار ادا کیا تھا۔
تحریکِ انصاف کا مؤقف ہے کہ وہ امریکی انتظامیہ، کانگریس اور میڈیا تک صرف یہ بات پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل فوری طور پر آزاد اور منصفانہ انتخابات میں ہے۔
حالیہ دنوں میں یہ خبریں زور پکڑ رہی ہیں کہ تحریک انصاف امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے لابنگ فرمز کی خدمات حاصل کر رہی ہے اور اس مد میں لاکھوں ڈالرز خرچ کیے جا رہے ہیں۔