روہنگیا آبادی کے ساتھ ’نامناسب رویے‘ پر اوباما کا اظہار تشویش

فائل

روہنگیا پناہ گزینوں کے قیام کی اجازت سے متعلق، امریکی صدر نے ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں کو سراہا، جنھوں نے روہنگیا مسلمان آبادی کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر، امریکہ نے روہنگیائی لوگوں کی امداد کے لیے ایک کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے

صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ میانمار میں روہنگیا مسلمان اقلیت کے ساتھ ’مناسب برتاؤ نہیں ہو رہا، جس کے نتیجے میں، وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’کوئی بھی شخص اپنا وطن چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا، اگر اُسے یہ یقین ہو کہ اُس کے حقوق محفوظ ہیں اور اُس کے ساتھ انصاف کا برتاؤ روا رکھا جائے گا‘۔

صدر اوباما نے یہ بات پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہی، جس میں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم (آسیان) سے تعلق رکھنے والے نوجوان قائدین شریک تھے۔

امریکی انتظامیہ کی جانب سے پیش کردہ فیلوشپ کے تحت، ’آسیان‘ کے رُکن ملکوں سے تعلق رکھنے والے 75 سرکردہ نوجوان اِن دِِنوں امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے ہیں۔

روہنگیا پناہ گزینوں کے قیام کی اجازت سے متعلق، امریکی صدر نے ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں کو سراہا، جنھوں نے روہنگیا مسلمان آبادی کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکہ نے روہنگیائی لوگوں کے لیے ایک کروڑ ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔

بقول اُن کے، ’جب آپ کو پتا ہو کہ آپ اقلیت میں ہیں، اور آپ انسانی اسمگلنگ اور امتیاز کا شکار ہو سکتے ہیں، اور یہ کہ آپ کو انصاف کی کوئی توقع باقی نہ رہے، تو پھر لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں‘۔

اِس موقع پر صدر اوباما نے بچپن میں انڈونیشیا میں گزارے ہوئے اپنے دِنوں کے بارے میں دھیان مبذول کرایا۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن ِدنوں، جکارتہ میں چینی آبادی کے ساتھ عدم امتیاز کا رویہ عام تھا، ’بالکل ایسا ہی جیسے یورپ میں کسی وقت یہودیوں کے ساتھ امتیاز کا معاملہ جاری تھا‘۔