پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے قومی ٹیم کے دورۂ انگلینڈ کے لیے سابق کپتان یونس خان کو بیٹنگ کوچ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ناقد سمجھے جانے والے یونس خان کی تقرری پر کرکٹ حلقوں میں اس فیصلے پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یونس خان کا شمار دنیا کے بہترین بلے بازوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز اور سینچریاں بنانے کے علاوہ انہوں نے کئی میچز میں قومی ٹیم کی فتوحات میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 2009 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو کامیابی سے ہم کنار کرانا ہو یا ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں تاریخی کامیابی، ڈیبیو ٹیسٹ میں سینچری اسکور کرنا ہو یا مشکل وقت میں ٹیم کی قیادت سنبھالنا، یونس خان نے اپنے کیریئر کے دوران کئی کارنامے سر انجام دیے۔
انگلینڈ کے مشکل دورے کے لیے نہ صرف وہ قومی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کی رہنمائی کریں گے بلکہ ہیڈ کوچ مصباح الحق کے ساتھ مل کر نوجوان بلے بازوں کو لمبی اننگز کھیلنے کے گر بھی سکھائیں گے۔
سینئر اسپورٹس صحافی وحید خان یونس خان کی تقرری کو ایک اچھا فیصلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول یونس جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی کی تقرری پاکستان کرکٹ کے لیے سود مند ثابت ہو گی اور ایسا فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایک قابلِ ذکر کامیابی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ یونس خان ایک الگ مزاج کے کھلاڑی رہے ہیں اس سے پہلے انہوں نے جونیئر ٹیم کے ہیڈ کوچ کی پوزیشن کے لیے درخواست دی تھی لیکن بات نہیں بن سکی۔
البتہ جب سے وہ ریٹائر ہوئے ہیں اُن کی خواہش رہی ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ کے ساتھ کسی نہ کسی کوچنگ پوزیشن میں کام کریں۔ اور اس لحاظ سے دیکھیں تو یہ بورڈ کا بہت اچھا فیصلہ ہے۔
وحید خان نے مزید کہا کہ "'یونس کا سب سے بڑا ایڈوانٹیج یہ ہے کہ وہ مصباح کے ساتھ کھیلا ہوا ہے۔ وقار یونس کے ساتھ نہ صرف کھیلا بلکہ اس کی اچھی ایسوسی ایشن رہی ہے اور مشتاق کو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ اس طرح ان چاروں کا یہ ایک اچھا کمبی نیشن ہے جو پاکستان کرکٹ کو مستقبل میں آگے لے کر جائے گا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
بقول وحید خان موجودہ زمانے کے کھلاڑیوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ منسلک کرنے کی باتیں کافی دنوں سے گردش میں تھیں۔ یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ بورڈ نے اب یہ قدم اٹھایا ہے۔
وحید خان کہتے ہیں کہ "ہائی پرفارمنس سینٹر میں ندیم خان اور ثقلین مشتاق کی تقرری سمیت پاکستان کرکٹ بورڈ اب وہ فیصلے کر رہا ہے جس سے ہماری کرکٹ کو فائدہ ہو گا۔ یونس خان کو بھی بورڈ کے ساتھ کام کرکے ان کے کلچر کا اندازہ ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ یونس خان کا تقرر صرف دورۂ انگلینڈ کے لیے نہیں، بلکہ یہ لانگ ٹرم فیصلہ ہے۔"
وحید خان کے بقول سینئر ٹیم کے ساتھ کام کر کے یونس خان کو نہ صرف اچھا تجربہ ہو گا بلکہ اس کے بعد انہیں کسی بھی پوزیشن میں شفٹ کرنے میں آسانی ہو گی۔
ٹیسٹ کرکٹر فیصل اقبال بھی سمجھتے ہیں کہ یونس خان کو بیٹنگ کوچ بنانے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹرز کے تجربے سے نوجوان جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، انہیں اٹھانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ یونس خان ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر اب ٹیم کے بہتر مستقبل کے لیے کام کریں گے۔
فیصل اقبال کے بقول حال ہی میں جو گروپنگ کی باتیں سامنے آئی ہیں اس سے کھلاڑیوں کا دل ضرور دکھا ہے۔ لیکن مجھے امید ہے کہ یونس وہ تمام باتیں بھول کر پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔
اُن کے بقول "یونس خان جب کپتان تھے تو انہوں نے کئی ایسے فیصلے کیے تھے جس سے پاکستان کو فائدہ ہوا تھا۔ اب وہ بیٹنگ کوچ بنے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہاں بھی وہ بہتر فیصلوں کا حصہ ہوں گے۔"
فیصل اقبال کہتے ہیں کہ ماضی میں یونس نے کئی بار اپنے غصے کی وجہ سے کئی فیصلے جلد بازی میں کیے۔ لیکن وہ امید کرتے ہیں کہ اب وہ جس پوزیشن میں آئے ہیں اس سے مکمل انصاف کریں گے۔
فیصل اقبال کا کہنا تھا کہ یونس خان کی وجہ سے لوگ اب مزید دلچسپی سے کرکٹ میچز دیکھیں گے کہ ماضی کا ٹرائیکا جو یونس خان، وقار یونس اور مصباح الحق پر مشتمل ہے، اب کرکٹ کی کیسے خدمت کرتا ہے۔
ایک جانب سب سے زیادہ رنز بنانے والا بیٹسمین، ایک جانب تیز ترین فاسٹ بالر اور ایک طرف سب سے کامیاب کپتان، دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کیسے کام کرتے ہیں۔
یونس خان جہاں اپنے دلکش اسٹروکس کی وجہ سے مشہور تھے، وہیں ان کے غصے اور ٹیمپرامنٹ کی کہانیاں سب کو یاد ہیں۔ جب وہ کرکٹ ٹیم میں بطور کھلاڑی اور بعد میں کپتان تھے، تب بھی بورڈ سے ان کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ انہوں نے متعدد بار کپتانی چھوڑی اور ایک بار تو ٹیم سے ڈراپ ہونے کے بعد انہوں نے خود کو گولی مارنے کی بھی دھمکی دی تھی۔
لیکن وحید خان کا کہنا ہے کہ غصے کا تیز ہونا اور کوچنگ کا تجربہ کم ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ان کے بقول "جو یونس کی پرفارمنس رہی ہے، جیسا ان کا ریکارڈ رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ یونس کے بارے میں ہمیشہ کہا گیا ہے کہ ان کی کھیل کو جانچنے کی صلاحیت بہت اچھی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ ڈسلپن کے پابند کھلاڑی تھے، ان کے کام کرنے کے طریقہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر وہ یہ ساری خوبیاں نوجوانوں میں منتقل کرسکتے ہیں تو یہ پاکستان کرکٹ کے لیے سود مند ہو گا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب جیو نیوز سے وابستہ صحافی عتیق الرحمان نہ تو یونس خان کی تقرری کو بہترین فیصلہ سمجھتے ہیں نہ ہی بدترین۔ عتیق کے بقول یونس خان اپنی مرضی کے مالک رہے ہیں۔ اگر انہیں ان کی مرضی سے کام کرنے دیا گیا تو ٹیم کا فائدہ ہو گا۔ اور اگر ان کی مرضی سے انہیں کام نہ کرنے دیا گیا، تو وہ اننگز ڈکلیئر بھی کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ سینچری کے قریب ہی کیوں نہ ہوں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عتیق الرحمان نے کہا کہ "یونس خان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جہاں کچھ لوگ اسے بورڈ کا فرنٹ فٹ پر اسکورنگ شاٹ کہہ رہے ہیں، وہیں کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کی نظر میں اسے بیک فٹ پر ڈیفنسیو شاٹ یعنی دفاعی حکمتِ عملی بھی کہا جا سکتا ہے۔"
عتیق الرحمان کا کہنا تھا کہ یونس خان پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین تو ہیں، لیکن ان کا کوچنگ کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اسی سے بورڈ کے فیصلے پر سوال اٹھتے ہیں۔
عتیق الرحمان کے بقول "دنیا بھر میں کوچز گراس روٹ لیول سے آتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جتنا زیادہ کھیلنے کا تجربہ، اتنی اچھی کوچنگ پوزیشن۔ اگر پوسٹ کے لیے اشتہار دیا بھی جاتا ہے تو من پسند کھلاڑیوں کو ذہن میں رکھ کر۔"
بقول عتیق الرحمان یونس خان کی اچانک تقرری پر سوال تو بنتے ہیں۔ اگر یونس خان بیٹنگ کوچ ہوں گے، مشتاق احمد اسپن بالرز کو دیکھیں گے اور وقار یونس فاسٹ بالرز کی رہنمائی کریں گے، تو پھر مصباح الحق کس بات کے ہیڈ کوچ ہیں؟
اُن کے بقول اگر محمد یوسف کا حالیہ بیان سچ مان لیا جائے جس میں انہوں نے یونس خان کے خلاف بغاوت کا سرغنہ مصباح الحق کو قرار دیا تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یونس خان اس کھلاڑی کے ماتحت کیسے کام کریں گے جس کی وجہ سے ان کی اپنی کپتانی گئی تھی؟
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے فوراً بعد ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو خیرباد کہنا ہو یا چیئرمین پی سی بی کی جانب سے تاخیر سے ملاقات پر کپتانی کو خدا حافظ کہنا، یونس خان کی تقرری کے بعد ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا وہ انگلینڈ کے مکمل دورے تک ٹیم کے ساتھ رہیں گے یہ پھر بیچ میں ہی سب کچھ چھوڑ کر وطن واپس آجائیں گے؟
اس بارے میں عتیق الرحمان کہتے ہیں کہ یونس نے جب بھی عہدہ چھوڑا تو اس کے پیچھے اصول اور اختیارات کی جنگ رہی ہے۔ "یونس خان ایک کھرے انسان تو ہیں لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچنے والے نہیں،ایک کوچ کے لیے ٹھنڈے دماغ کے ساتھ ساتھ پلاننگ بہت ضروری ہے۔ انہوں نے تو منٹوں میں کپتانی چھوڑنے کے فیصلے کیے جیسے 2006 میں چیئرمین پی سی بی سے ملاقات میں دو منٹ کی تاخیر ہونے پر وہ کپتانی چھوڑ کر چلے گئے۔"
عتیق الرحمن کے بقول 2009 میں سینیٹ اسٹینڈنگ کمیٹی کے مبینہ الزامات پر اور بعد میں ٹیم میں گروپ بندی کی وجہ سے، ہر بار انہوں نے کپتانی سے ریٹائرمنٹ کو ہر مشکل کا حل سمجھا۔ وہ دورہ انگلینڈ پورا کریں گے یا اس دورے پر وہ کسی سے جھگڑا کر کے یا کسی سے ناراض ہوکر واپس آجائیں گے، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔ لیکن امید تو یہی ہے کہ وہ نوجوان کرکٹرز کے لیے اچھی مثال ثابت ہوں گے۔