امن مذاکرات کے شروع ہونے پر عارضی جنگ بندی کی توقع: یمنی عہدیدار

فائل فوٹو

صدر ابو منصور ہادی کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام لکھے گئے خط میں اس ممکنہ عارضی جنگ بندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیاکہ اگر حوثی اتفاق کریں تو اس (عارضی جنگ بندی)کی مدت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

یمن کے رہنماؤں نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ ہفتے جب اقوم متحدہ کی ثالثی میں سوئیٹزرلینڈ میں امن مذاکرات شروع ہوں گے تو اس کے ساتھ ہی حکومت نواز فورسز اور حوثی باغیوں کے درمیان سات روزہ عارضی جنگ بندی کا آغاز ہو سکتا ہے۔

صدر ابو منصور ہادی کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام لکھے گئے خط میں اس ممکنہ عارضی جنگ بندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر حوثی اتفاق کریں تو اس (عارضی جنگ بندی)کی مدت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

یمن کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے اسمٰعیل شیخ احمد نے پیر کو کہا کہ اس بارے میں انہیں "تقریباً یقین" ہے کہ جنگ عارضی طور پر بند ہو گی۔ اس سے قبل وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ دونوں فریق 15 دسمبر سے شروع ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت کے لیے رضامند ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ جنرل پیپلز کانگریس کے عہدیدار جو سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حمایتی ہیں، وہ بھی متوقع طور پر اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔

یمن کی لڑائی گزشتہ ایک سال سے اس وقت سے جاری ہے جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد انہوں ںے جنوب کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے عدن کی بند رگاہ پر بھی قبضہ کر لیا اور اس باعث صدر ہادی سعودی عرب چلے گئے تھے۔

عالمی ادارہ صحت 'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق یمن کی لڑائی میں رواں سال اب تک کم از کم 2,500 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی اکتوبر میں جاری ہونے والے ایک رپورٹ کے مطابق یہ شورش ملک کے 22 میں سے 21 صوبوں تک پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے انسانی اور صحت عامہ کے بحران کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جس کے باعث ہزاروں یمنی شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے۔