یمن: عدن کے نزدیک حوثی باغیوں، سنی قبائل میں جھڑپیں

صدر منصوری ہادی کی حامی ملیشیا کے جنگجو عدن میں گشت کر رہے ہیں

حوثیوں کے دستے پیر کو علی الصباح عدن کے نواحی علاقے پہنچے جہاں آباد سنی قبائل شیعہ باغیوں کی پیش قدمی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔

یمن میں صدر عبدالرب منصور ہادی کے حامی سنی قبائل اور حوثی باغیوں کے درمیان ملک کے دوسرے بڑے شہر عدن کے نواح میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔

سیکڑوں حوثی باغیوں نے اتوار کو جنوب میں عدن کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔ حوثیوں کے دستے پیر کو علی الصباح عدن کے نواحی علاقے پہنچے جہاں آباد سنی قبائل شیعہ باغیوں کی پیش قدمی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔

حوثی باغیوں نے گزشتہ روز دارالحکومت صنعا اور عدن کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ملک کے تیسرے بڑے شہر تعز پر بھی قبضہ کرلیا تھا جو عدن سے 180 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔

تعز پر قبضے کے بعد باغیوں نے عدن کی جانب پیش قدمی جاری رکھی تھی جسے صدر عبدالہادی منصور نے اپنا عبوری دارالحکومت قرار دے رکھا ہے۔

صدر منصور گزشتہ ماہ حوثی باغیوں کے زیرِ قبضہ صنعا سے فرار ہونے کے بعد عدن پہنچے تھے جہاں انہوں نے از سرِ نو اپنی حکومت تشکیل دی ہے۔

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں حوثی باغی عدن کے نواح میں پہنچ چکے ہیں جہاں ان کی سنی قبائل کے ساتھ جھڑپیں ہورہی ہیں۔ صدر ہادی کے حامی فوجی دستے بھی عدن کے دفاع میں سنی قبائل کا ساتھ دے رہے ہیں۔

دریں اثنا صدر ہادی کی کابینہ کے نئے وزیرِ خارجہ ریاض یاسین نے پڑوسی خلیجی ریاستوں سے اپلے کی ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے اپنے فوجی دستے یمن بھیجیں۔

پیر کو عدن سے اپنے بیان میں یمنی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ خلیجی ملکوں کی یمن میں فوجی مداخلت کا وقت آن پہنچا ہے کیوں کہ حوثی جنگجووں نے پیش قدمی روکنے سے انکار کردیا ہے اور وہ یمنی حکومت کے ساتھ مذاکرات سے بھی انکاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کو مزید علاقوں پر قبضے سے روکنے کے لیے خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کو یمن میں فوری مداخلت کرنی چاہیے۔

حوثی باغی نے یمن کے شیعہ زیدی قبائل کو حکومت میں زیادہ اختیارات دینے کے مطالبے سے اپنی تحریک کا آغاز کیا تھا اور وہ گزشتہ سال ستمبر سے دارالحکومت صنعا کے اہم مقامات پر قابض ہیں۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں باغیوں نے پارلیمان کو تحلیل کرنے کے بعد حکومت کا انتظام بھی سنبھال لیا تھا جس کے خلاف یمن کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔

خلیج کی تمام عرب ریاستیں اور امریکہ سمیت بیشتر مغربی ملک صدر ہادی کو یمن کا قانونی حکمران قرار دیتے ہیں اور دارالحکومت پر باغیوں کے قبضے کی مذمت کرچکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ بھی ہادی کو یمن کا صدر تسلیم کرتی ہے۔

یمن کی پڑوسی عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب کو حوثی باغیوں کی پیش قدمی پر سخت تشویش ہے اور اس نے ایران پر باغیوں کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا ہے۔

سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے خبردار کیا ہے کہ اگر یمن میں جاری بحران کا پرامن حل نہ نکل سکا تو عرب ریاستیں یمن کے حوثی باغیوں کی "جارحیت" کے سدِ باب کے لیے ضروری اقدامات کریں گی۔

پیر کو ریاض میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شہزادہ سعود نے کہا کہ عرب ملکوں کی جانب سے یمنی صدر ہادی کو فوجی مدد کی فراہمی بھی خارج از امکان نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یمن کا بحران صرف اسی صورت میں حل ہوسکتا ہے جب وہاں کی قانونی حکومت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے دیے جائیں اور حوثی باغی تمام سرکاری عمارات اور ریاستی اداروں کا قبضہ چھوڑدیں۔