سعودی عرب میں یمن کی حکومت کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ یمن میں جاری جنگ کا حل تلاش کرنے کے لیے حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ عمان میں ہونے والے مذاکرات امریکہ کی درخواست پر کیے جارہے رہے ہیں۔ ساتھ ہی امریکہ نے تسلیم کیا ہے کہ متعدد امریکی یمن میں حوثی باغیوں کی حراست میں ہیں۔
آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی میں دہشت گردی کے تجزیہ کار گریگ بارٹن نے کہا کہ ’’اس بات کا تصور کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ مذاکرات امریکہ کے کلیدی حلیف سعودی عرب کی منظوری کے بغیر ہو رہے ہیں۔‘‘ سعودی عرب مارچ سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی حملوں کی قیادت کر رہا ہے۔
بارٹن کے کہا کہ ’’مذاکرات شروع ہونے سے پہلے اس معاملے پر سعودی عرب کے ساتھ بند کمرے میں بہت سے ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ اس سے خوش ہیں کہ نہیں، مگر اسے قائل کیا جا سکتا ہے کہ بات چیت سب سے کم برا طریقہ ہے۔ اگر وہ اس سے خوش نہیں بھی ہیں تو وہ اسے قبول کر لیں گے، مگر یہ دیکھنا بہت دلچسپ ہو گا کہ وہ عوامی سطح پر کس طرح رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
اگرچہ عمان خلیج تعاون کونسل کا رکن ہے مگر اس نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن میں فضائی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی ہونے والی امن کانفرنس اس وقت ملتوی کر دی گئی تھی جب جلا وطن صدر عبدرالربہ ھادی نے مطالبہ کیا تھا کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے حوثی باغی اقوامی متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے قبضے میں تمام علاقوں سے دستبردار ہو جائیں۔
دریں اثنا ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے خبر دی ہے کہ حوثیوں نے کم از کم چار امریکیوں کو دارالحکومت صنعا میں ایک جیل میں قید کر رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جو بعد میں واپس لے لیا گیا۔
اخبار کے مطابق ان چار کی حراست سے امریکہ کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔
حراست میں لیے گئے میں تین قیدی نجی شعبے میں کام کرتے تھے جبکہ چوتھے، جس کے پاس یمن اور امریکہ کی دہری شہریت ہے، کے پیشے کے متعلق معلومات میسر نہیں۔ شریف موبلی نامی ایک پانچواں امریکی شہری کئی سال سے دہشت گردی کے الزام میں یمن میں قید ہے۔
اخبار کے مطابق یہ افراد ان درجنوں امریکی شہریوں میں شامل ہیں جو یمن سے نہیں نکل سکے یا جو فروری میں امریکی سفارت خانہ بند ہونے کے بعد بھی وہاں رہ گئے۔