یمنی اسپتال کا بچہ وارڈ: جہاں سے ہنسنے کی نہیں، خاموشی کی آواز آتی ہے

یمن کے ایک استال میں دو سالہ رضی اودھ خوراک کی کمی کا شکار بچوں کے وارڈ میں زیرِ علاج ہے۔ فائل فوٹو۔

اقوامِ متحدہ کے خوراک سے متعلق ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ ادارے کو مالی مشکلات کی وجہ سے یمن میں قحط کا شکار آبادی کو خوراک مہیا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں مجبوراً پرائیویٹ ڈونرز کی مدد لینا پڑے گی۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق یمن کے دورے کے بعد ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلے نے جنگ سے تباہ حال یمن کی صورت حال کو ایک 'جہنم' قرار دیا۔

ڈیوڈ بیزلے کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کو یمن میں امداد کے لیے آئندہ چھ ماہ کے دوران کم از کم 81 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے۔ جب کہ اس کے پاس صرف 30 کروڑ ڈالر موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے کو مزید ایک ارب نوے کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد درکار ہو گی تا کہ اس سال کے اہداف کو پورا کیا جا سکے۔

بیزلے نے اس ہفتے کے آغاز پر یمن کا دورہ کیا جس میں دارالاحکومت صنعا کا دورہ بھی شامل ہے جو کہ اس وقت ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے قبضے میں ہے۔

بیزلے کا کہنا تھا کہ دنیا کو یمن کی صورتِ حال کے حوالے سے جاگنا ہو گا، خاص طور پر بچوں کے لیے، جنہیں انہوں نے بقول ان کے ، 'زندگی اور موت کے درمیان معلق' دیکھا ہے۔

منگل کو شام گئے ایتھوپیا کے شہر ادیس ابابا سے ویڈیو لنک کے ذریعے اے پی سے بات کرتے ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی شخص کسی بچہ وارڈ میں جاتا ہے تو وہاں اسے عمومی طور پر رونے یا ہنسنے کی آوازیں آتی ہیں، لیکن جس اسپتال میں وہ گئے، اس کے بچہ وارڈ میں ہنسنے اور رونے کی آوازیں نہیں آتیں، بلکہ ایک عجیب سی سوگوار خاموشی طاری تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک سے دوسرے کمرے اور وارڈ میں گئے اور وہ جگہ جہنم کا منظر پیش کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کی بدترین جگہ تھی۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یمن میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد یا یوں کہیں کہ نصف کے قریب آبادی کو سنگین غذائی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ہزاروں افراد پہلے ہی سے قحط زدہ صورت حال میں رہ رہے ہیں۔ اس صورت حال کو امدادی تنظیمیں دنیا کا بد ترین بحران قرار دیتی ہیں۔

خوراک کی شدید کمی کے باعث، چار لاکھ بچوں کو موت سے بچانے کے لیے، ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔ ایندھن میں کمی کی وجہ سے مزید لاکھوں افراد شدید غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

یمن میں 2014 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد، اسے عرب دنیا کا غریب ترین ملک کہا جاتا ہے۔ 2014 سے اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کو یمن میں اپنی امدادی کارروائیاں جاری رکھنے میں سخت مالی مشکلات درپیش ہیں۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مزید امدادی رقم کہاں سے آئے گی۔ بیزلے نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر عالمی لیڈروں نے دنیا کے کمزور ترین ملکوں کو، جن میں یمن، افغانستان، عوامی جمہوریہ کانگو اور شام شامل ہیں، اپنی ترجیحات میں شامل نہ کیا، تو 2021 میں مزید تباہی دیکھنے میں آئے گی۔