امریکہ کے نمائندۂ خصوصی کا دورۂ یمن، مصائب کم کرنے کے لیے یکجہتی اور اصلاحات پر زور

  • قمر عباس جعفری

فائل فوٹو میں مارب میں ایک آدمی اپنی بیٹی کو حوثی میزائل حملے کے بعد اٹھا کے لے جارہا ہے ۔ فوٹو کریڈٹ رائٹرز

امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے یمن ٹم لینڈرکنگ نے پیر کو عدن کا دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے وزیر اعظم مائین عبدالمالک سعید سے ملک کی صورتحال پر بات چیت کی جبکہ ملک کو سنگین اقتصادی اور سلامتی کے مسائل کا سامنا ہے۔

واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ امریکی اہلکار نے اس بات پر زور دیا کہ یمن کے تمام لوگوں کو اس وقت یکجا ہونا چاہیے، تاکہ ملک میں جاری جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے۔

ٹم لینڈر کنگ نے کہا کہ یمن کے لوگوں کو مل کر اصلاحات کے عمل کے ذریعے قومی معیشت کو بحال کرنے، بد عنوانی کے خاتمے اور لوگوں کی تکالیف کم کرنے کے لے کوششیں کرنی چاہئیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بیان کے مطابق، اس موقع پر عدن میں امریکہ کی قائم مقام سفیر کیتھی ویسٹلے نے کہا کہ امریکہ وزیر اعظم کے وعدوں کو خوش آمدید کہتا ہے اور عدن میں یمنی حکومت کی موجودگی کی تائید کرتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لوگوں کے مصائب کم کرنے کی خاطر یمن کی حکومت کو مزید اصلاحات کرنی چاہیں۔

مذاکرات کے دوران، یمنی رہنماوں نے بتایا کہ کس طرح حوثی گروپ کی جانب سے مارب کے علاقے پر حملے انسانی بحران کو بد تر بنا رہے ہیں۔

امریکی وفد نے یمن کی حکومت پر زور دیا کہ وہ اندرونی روابط کو مضبوط کریں جن میں جنوبی ٹرانزیشنل کونسل اور دوسرے گروپوں سے رابطے شامل ہوں۔

امریکی حکام کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب یمن میں جنگ اور اس کے نتیجے میں انسانی بحران کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔

ماہرین کے بقول اس جنگ کو ختم کرانے اور اس المئیے کو ہونے سے روکنے کے لئے خاطر خواہ کوششیں نہیں ہو رہی ہیں۔

یمن میں متعین اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے، یو این ایچ سی آر کی اطلاعات کی افسر دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یمن کے وسطی علاقے مارب میں لڑائی میں شدت آتی جارہی ہے اور اکتوبر کے مہینے میں وہاں بھاری تعداد میں شہری مارے گئے ہیں یا زخمی ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مارب وہ جگہ ہے جہاں ملک بھر سے گزشتہ چھہ سال کے دوران جنگ سے بھاگے ہوئے لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی اور اب جبکہ مارب میں بھی جنگ میں شدت آرہی ہے اور مارب کے مختلف علاقوں میں ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے ہیں جن کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ نہ وہ جنگ کے سبب وہاں سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی انسانی بنیاد پر مدد کرنے والے اداروں کو وہاں تک رسائی حاصل ہے کہ ان لوگوں تک جان بچانے والی امداد پہنچا سکیں جس کی انہیں شدید ضرورت ہے۔

SEE ALSO: یمن کی خانہ جنگی نے ملک کو قحط اورمعاشی تباہی کی جانب دھکیل دیا

انہوں نے کہا کہ یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہئے کہ یمن دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے جو اس وقت بدترین انسانی بحران کا شکار ہیں اور جہاں کی 67 فیصد کے قریب آبادی کی زندگیوں کا انحصار بیرونی انسانی امداد پر ہے۔ اور یوں صورت حال روز بروز مخدوش ہوتی جارہی ہے، کیونکہ یہ امداد نہیں پہنچ پا رہی ہے۔

دنیا اسلم خان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ یمن کی جنگ میں دو ہزار پندرہ سے اب تک تقریباً دس ہزار بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ یعنی اوسطاً چار بچے روزآنہ اس جنگ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور یوں انکی ایک پوری نسل ختم ہو رہی ہے۔ ایک کروڑ دس لاکھ بچوں کو اس وقت امداد کی شدید ضرورت ہے۔ اور اس جنگ سے سب سے زیادہ متاثر بچے اور خواتین ہو رہے ہیں۔ اور جنگ کے سبب جو چار ملین لوگ بے گھر ہوئے ہیں ان میں 80 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بارودی سرنگوں سے ہزاروں بچے معذور ہو چکے ہیں۔

دنیا اسلم خان کا کہنا تھا کہ کہ اسوقت ایک پوری نسل کو بچانے کے لئے یمن میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کی ضرورت ہے جس کے اس وقت دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

اس سوال کے جواب میں کہ کیا انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے اداروں کو ضرورت کے مطابق امداد مل رہی ہے انہوں نے کہا کہ فنڈنگ یمن کی ضروریات سے بہت کم ہے۔ اس سال ہمیں جتنی امدا کی ضرورت تھی اسکی صرف 55 فیصد ملی ہے۔

عارف انصارواشنگٹن میں قائم 'پالیٹیک' کے چیف انالسٹ ہیں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یمن کی جنگ کو بند کرانے اور امن قائم کرانے کے لئے کوششیں ہوئیں لیکن کامیاب نہیں ہو سکیں۔ کیونکہ انصار اللہ کا جو مطالبہ تھا کہ انکی بحری اور زمینی ناکہ بندی ختم کی جائے وہ نہیں ہوسکی تھی۔ اور اب مارب میں لڑائی میں اسی لئے شدت آرہی ہے کہ ہر فریق یہ چاہتا ہے کہ مارب پر اس کا کنٹرول مستحکم ہر تو شمالی یمن پر اس فریق کا کنٹرول ہو جائے گا اور مذاکرات میں اس فریق کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اسکی قیمت عام آدمی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ جیسا کہ خود یو این کا بھی کہنا ہے کہ یہ بد ترین انسانی بحران ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بھی یمن کے لئے اپنا ایک خصوصی نمائیندہ مقرر کیا ہوا ہے۔ لیکن معاملات اس سمت میں نہیں جا رہے۔ جس سمت میں انہیں جانا چاہئیے۔

عارف انصار کا کہنا تھا کہ یمن کی صورت حال اس لحاظ سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ اس کا تعلق خطے کے دوسرے متعدد مسائل سے جڑا ہوا ہے جن میں سعودی عرب اور ایران کی کشمکش، ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اور پورے خطے کی مجموعی سیاست وغیرہ شامل ہیں۔

عارف انصار کا کہنا تھا کہ اگر ایران کی مغربی ملکوں کے ساتھ جوہری معاملے میں جو بات چیت چل رہی ہےاس میں مثبت پیش رفت ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب پر بھی دباؤ بڑھے اور یمن میں قیام امن کی کوئی صورت نکل سکے۔