یمن کی حکومت نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ صدر علی صالح ان اعلیٰ عہدے داروں میں شامل ہے جو جمعے کے روز صدارتی محل میں راکٹ حملے میں زخمی ہونے کے بعد علاج معالجے کے لیے سعودی عرب گئے ہیں۔
ایک سرکاری عہدے دار نے ہفتے کے روز کہا کہ مسٹر صالح کا علاج دارالحکومت صنعا ء کے ایک فوجی اسپتال میں کیا جارہاہے۔تاہم سرکاری میڈیا کی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور کم ازکم چار دوسرے اعلیٰ عہدے داراپنے علاج کے لیے ایک ہمسایہ ملک میں ہیں۔
اسی اثناء میں صنعاء میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا جہاں صدر کی وفادار فورسز نےحکومت مخالف راہنماؤں کے گھروں پر بموں سے حملے کیے۔
جن حکومت مخالف راہنماؤں کے گھروں کو نشانہ بنایا گیا ، ان میں باغی قبائلی سردار شیخ صادق الحمد کا گھر بھی شامل ہے۔ یہ اس گروپ کے لیڈر ہیں جسے مسٹر صالح نے ایک غیر قانونی گینگ کا نام دیاہے اورا س پر جمعے کے روز صدارتی محل پر راکٹ حملے کا الزام ہے۔
دوسری جانب لڑائیوں اور راستوں کی بندش کے باعث دارالحکومت صنعاء سے ہزاروں افراد اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہوچکے ہیں۔
مسٹر صالح کی وفادار فورسز اور حکومت مخالف باغی قبائل میں جاری تشدد سے ملک میں خانہ جنگی کے خطرے میں اضافہ ہورہاہے۔ صدر صالح حالیہ ہفتوں میں تین باراس معاہدے پر ستخطوں سے منحرف ہوچکے ہیں جو خلیج تعاون کونسل کی مدد سے طے پایا تھا اور جس کے نتیجے میں ان کے 33 سالہ اقتدار کا اختتام ہوجائے گا۔
جنوری میں ، جب سے حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوا ہے، اب تک تقریباً چار سو افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔