قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے بھارت کی جیلوں میں بند کشمیری سیاسی قیدیوں کی مبینہ ''حالتِ زار'' کی طرف وزیرِ خارجہ سشما سوراج کی توجہ مبذول کرانے لے لئے انہیں ایک خط لکھا ہے۔
خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ''ان قیدیوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے اور انہیں روزانہ بنیاد پر جیل عملے اور محافظین کی طرف سے اور بعض اوقات اخلاقی قیدیوں کے ذریعے ہراسان کیا جارہا ہے''۔
خط میں جس کی کاپیاں اتوار کو سرینگر میں ذرائع ابلاغ میں تقسیم کی گئیں، یاسین ملک نے پاکستان میں قید سزا یافتہ مبنیہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کی رواں ہفتے اسلام آباد میں ان کے اہل خانہ سے ہونے والی ملاقات اور بعد میں سشما سوراج کے بھارتی پارلیمان میں دئے گئے بیان کے دوران، کلبھوشن کی والدہ اور اہلیہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے مبینہ ناروا سلوک پر پاکستان کی سخت تنقید کا حوالہ دیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے ''بھارتی حکام کو خود اپنے ملک میں قید سینکڑوں کشمیریوں کی حالتِ زار کی طرف بھی توجہ دینی چاہئیے''۔
یاسین ملک نے کہا ہے۔ "میں کلبھوشن جادیو کے اہل خانہ کے درد کو سمجھ سکتا ہوں۔ میں نے 28 دسمبر کو پارلیمنٹ میں آپ کی جذباتی تقریر کو غور سے سنا۔ آپ نے کہا جادیو کی والدہ 22 ماہ کی طویل جدائی کے بعد اپنے بیٹے کو گلے لگانا چاہتی تھیں۔ لیکن، انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرے پُرانے زخم تازہ ہوگئے اور اُس آزمائش کی یاد تازہ ہوگئی جس سے میری والدہ کو گزرنا پڑا تھا (جب میں خود جیل میں تھا)۔"
یاسین ملک نے اپنے خط میں یہ بھی کہا ہے کہ آپ نے یعنی بھارتی وزیرِ خارجہ نے اپنی تقریر کے دوران ایک قیدی اور اُس کے اہلِ خانہ کے حوالے سے ''بعض جائز سوالات اُٹھائے ہیں اور میں بھی آپ سے باالخصوص ماں کو گلے لگانے، اپنی بیوی کو چھونے اور بچوں کو دیکھنے کے حوالے سے اتفاق کرتا ہوں''۔ لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ''اس اصول کا اطلاق ہر قیدی پر ہونا چاہیے؛ وہ سیاسی قیدی ہو، مجاہدِ آزادی ہو، اخلاقی قیدی یا قانون توڑنے والا کوئی اور شخص''۔
یاسین ملک نے سشما سوراج کو مطلع کیا ہے کہ انہوں نے حال میں میں نئی دہلی کے قریب واقع تہاڑ جیل میں ''سیاسی سوچ کی پاداش میں بند کشمیریوں کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کیں''۔ خط کے الفاظ میں، "ان ملاقاتوں کے دوران ان قیدیوں کی بیویوں اور بچوں نے ایسی ہی عداوت اور بے عزتی سے بھرپور داستانیں سُنائیں"۔
واضع رہے کہ حکومتِ پاکستان کے اس اعلان کے بعد کہ اس نے جادیو کی والدہ اور اہلیہ کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اُس سے ملنے دیا۔ یاسین ملک کی اہلیہ مشعال حسین ملک نے، جو پاکستانی شہری ہیں، اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ''بھارت کو بھی اسی طرح کی فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے''۔ مشعال نے جو فروری 2009 میں یاسین ملک کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ گئی تھیں، شکوہ کیا تھا کہا انہیں اور اُن کی کم سن بیٹی کو بھارتی حکومت نے گزشتہ تین سال سے یاسین ملک اور انُ کی والدہ اور بہنوں سے، جو سرینگر میں مقیم ہیں، ''ملنے نہیں دیا''۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ ''مشعال ملک نے بھارت آنے میں دلچسپی دکھائی اور نہ انہیں جاری کئے گئے ویزے کی؛ جس کی دو سالہ مدت 2015 میں ختم ہوگئی تھی، تجدید کرائی اور نہ ہی نئے ویزے کے لئے درخواست دی''۔