اوباما انتظامیہ امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے پہلے دن سے سرگرم ہے۔ مگر نیو یارک شہر کے علاقے ٹائمز اسکوائر میں ناکام کاربم دھماکے کےمبینہ ملزم فیصل شہزاد کی گرفتاری کے بعد یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آخر امریکہ کے اندر بسنے والےبعض مسلمان نوجوان ایسی سرگرمیوں میں کیوں ملوث ہو رہے ہیں۔
فیصل شہزاد کو ایک سال پہلے امریکہ کی شہریت ملی تھی اور پانچ دن پہلے اس نے مبینہ طور پر نیویارک کے مصروف ٹائمز اسکوائر میں بم دھماکے کرنے کی کوشش کی۔ امریکی میڈیا میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ وہ شخص جو امریکہ میں اپنے خواب پورے کر رہا تھا ۔ بیوی اور دو بچوں کے ساتھ محنت کے ذریعے اپنی ترقی کی راہیں ہموار کر رہا تھا ۔ کیا وجہ ہے کہ وہ دہشت گرد بن گیا۔ حسن عباس کا تعلق ہارورڈ یونیورسٹی سے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ بعض امریکی پروفائلنگ اور پیٹریاٹ ایکٹ سے متعلق بعض معاملات ایسے تھے جنہوں نے عام لوگوں کے لیے مصیبت پیدا کی تو جن لوگوں کو آپ نے اپنے ساتھ ملانا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے شہریوں کے برابر سمجھیں۔ اور وہ سمجھیں کہ انہیں اس معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ انہیں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اسی لیے دہشت گرد کو اپنا راستہ نکالنے کی جگہ مل جاتی ہے۔
حسن عباس کہتے ہیں کہ اس کے سد باب کے لیے امریکی انتظامیہ کو امریکہ میں مقیم مسلم کمیونٹی سے روزمرہ بنیادوں پر گفتگو کرنی ہو گی۔ لیسا کرٹس کا تعلق قدامت پسند تھنک ٹینک ہیرٹیج فاونڈیشن سے ہے وہ کہتی ہیں کہ مجموعی طور پر امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو کوئی شکایات نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ کو جو نظر آئے گا وہ یہ ہے کہ بیشتر امریکی مسلمان اپنی اس زندگی سے خوش ہیں جو انہیں امریکہ میں ملی ہے۔ وہ امریکہ کسی وجہ سے آتے ہیں۔ ان کے پاس ملازمتیں ہیں وہ سکول جاتے ہیں۔ وہ امریکہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
صدر اوباما نے مسلمانوں اور امریکہ کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کی کوششیں شروع کیں تو مسلم دنیا میں یہ امید پیدا ہوئی کہ اب امن کے دشمن معصوم نوجوانوں کو ورغلا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکیں گے۔ مگر صدر اوباما کے ناقدین کہتے ہیں کہ صدر اوباما کی پالیسی گزشتہ امریکی حکومتوں کے مقابلے میں مختلف نہیں۔
حسن عباس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ان کی الیکشن مہم کے بعد جو ایک مثبت تاثر قائم ہوا تھا۔ اور اس کے بعد جب وہ ترکی اور قاہرہ گئے تو جو جملے اور باتیں انہوں نے کہیں تھیں ، ان کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ مڈل ایسٹ میں عرب اسرائیل مسائل پر ان کے اقدامات پرانہیں اتنا نہیں سراہا جا رہا جتنا ہونا چاہیے۔ شاید اس لیے کہ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتاہے۔ کہ امریکہ اسرائیل سے تھوڑی سختی سے بات کرے لوگ یہ توقع نہیں کر رہے تھے۔
حسن عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی لیکن پاکستانی پالیسی میکرز کا اس سے بہت زیادہ اختلاف نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر اوباما کی مسلم دنیا کے لیے پالیسی کو صرف ڈرون حملوں کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔
جبکہ لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر موقعوں پر جب امریکی نوجوانوں کا کسی شدت پسند تنظیم سے رابطہ سامنے آیا ہے تو اس کی وجہ مسلمانوں یا اسلام کے لیے امریکی پالیسی نہیں بلکہ ان کے ذاتی حالات تھے جن کی وجہ سے وہ دہشت گردوں کا ہتھیار بنے۔
دوسری طرف ایک معروف امریکی اخبار کے مطابق صدر اوباما نیویارک کے ٹائمزا سکوائر میں ناکام بنائے جانے والے کار بم حملے کے بارے میں پاکستان سے جلد اور ٹھوس معلومات فراہم کرنے کی بات کرنے والے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے جمرات کے روز یہ خبر وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار کے حوالے سےاس کا نام ظاہر کیے بغیر شائع کی اور لکھا کہ امریکہ اور پاکستان کو اس کیس کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اخبار کے مطابق عہدے دار کا یہ بھی کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ اس ہفتے کے آخر تک پاکستان کو اس کیس میں تعاون کے لیے ایک تفصیلی درخواست لکھے گی۔
امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ کار بم حملے کے مبینہ ملزم فیصل شہزاد نے انہیں بتایا ہے کہ اس نے بم بنانے کی تربیت پاکستان میں حاصل کی ۔ یاد رہے کہ پاکستانی طالبان اس حملے کی ذمہ داری قبول کر چکے تھے لیکن اب پاکستانی میڈیا کے مطابق انہوں نے ناکام بم حملے میں ملوث ہونے سے انکار کردیا ہے۔ جبکہ پاکستان آرمی کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے بدھ کے روزہی یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان آرمی کو یہ یقین نہیں کہ پاکستانی طالبان نے اس حملے کے لیے کسی قسم کی مدد کی ہو۔
درجہٴ حرارت 500 ڈگری ہے اور مزید بڑھنے کا امکان ہے