سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے خطے کی مساجد میں نمازیوں کی 'کمیونسٹ پارٹی' کے عہدیداران کے ساتھ "فکری نشستوں" کی منظوری بھی دی ہے۔
چین کے نیم خود مختار مغربی صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں نے شکوہ کیا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر رمضان کے مہینے میں بے جا پابندیاں عائد کردی ہیں اور انہیں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت نہیں دی جارہی۔
واضح رہے کہ صوبے کے کئی سرکاری دفاتر اور اسکولوں کی ویب سائٹوں پر گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان میں حکمران جماعت 'کمیونسٹ پارٹی' کے ارکان، سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ رمضان میں روزے رکھنے اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں شرکت سے اجتناب برتیں۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی عوام کی صحت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔ حکام کے بقول وہ علاقے کے رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ "اپنی ملازمتوں اور تعلیم کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کی غرض سے مناسب خوراک استعمال کریں"۔
واضح رہے کہ چین کے اس دوردراز صوبے میں مسلمانوں سمیت کئی نسلی اقلیتیں موجود ہیں اور ایغور نسل کے مسلمان صوبے کی آبادی کا لگ بھگ 45 فی صد ہیں۔
جلاوطن ایغور باشندوں کی تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' کے ترجمان دلشاد رسیت نے چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ سنکیانگ کی مقامی حکومت نے رمضان کے دوران علاقے میں سیکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے کی غرض سے کئی نئے منصوبے شروع کیے ہیں۔
دلشاد رسیت کے مطابق ان منصوبوں کے تحت سیکیورٹی اہلکاروں کو مساجد کی نگرانی کے علاوہ سرکاری سطح پر تقسیم کیے جانے والے مذہبی لٹریچر، نجی طور پر شائع ہونے والے کتب و رسائل کی ضبطی کے لیے گھروں کی تلاشی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
'ورلڈ ایغور کانگریس' کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے خطے کی مساجد میں نمازیوں کی 'کمیونسٹ پارٹی' کے عہدیداران کے ساتھ "فکری نشستوں" کی منظوری بھی دی ہے۔
واضح رہے کہ چین کے آئین میں عوام کو مذہبی آزادیوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ سنہ 1984 میں چینی حکومت نے سنکیانگ سمیت بعض نیم خودمختار علاقوں میں اقلیتوں کو مقامی سطح پر قائم حکومتوں میں نمائندگی اور متعلقہ علاقوں کی معاشی ترقی میں سرگرم کردار سمیت کئی حقوق بھی دے دیے تھے۔ لیکن چین کے مختلف علاقوں میں ان قوانین پر عمل درآمد کی صورت میں خاصا تفاوت پایا جاتا ہے۔
سنکیانگ کے علاقے میں مذہبی تعلیم کےحصول کے لیے مسلمانوں کے مدارس کے قیام کی اجازت دینے کے بارے میں بھی مقامی حکومت خاصی محتاط ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداران اس خدشے کا شکار ہیں کہ ان مدارس کےنتیجے میں ایغور مسلمان انتہا پسندی کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔
سنکیانگ کے علاقے پر چینی اقتدار کے خلاف علاقے میں ایغور مسلمانوں کی برائے نام مسلح بغاوت بھی جاری ہے جس کا ذمہ دار چینی حکومت پاکستانی قبائلی علاقوں میں تربیت پانے والے ایغور مسلمانوں کو ٹہراتی ہے۔
گزشتہ برس جب علاقے کے بڑے شہروں کاشغر اور ہوتان میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں 40 افراد ہلاک ہوئے تھے تو سنکیانگ کے گورنر نے الزام عائد کیا تھا کہ علاقے میں موجود شدت پسندوں کے پاکستان میں وسیع روابط موجود ہیں۔
ان واقعات کے بعد سے چین نے اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان پر مشترکہ سرحدی علاقے کی نگرانی سخت کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ چین نے سنکیانگ کے مسلم مزاحمت کاروں کے پاکستان میں تربیت پانے کا معاملہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق چین امریکہ مذاکرات میں بھی اٹھا یا تھا۔
تاہم چینی حکومت کے موقف کے برعکس امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا میں دہشت گردی کی تازہ صورتِ حال کے موضوع پر اپنی حالیہ رپورٹ میں چینی حکومت پر الزامات عائد کیا ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کی آڑ میں سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہی ہے۔
واضح رہے کہ صوبے کے کئی سرکاری دفاتر اور اسکولوں کی ویب سائٹوں پر گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان میں حکمران جماعت 'کمیونسٹ پارٹی' کے ارکان، سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ رمضان میں روزے رکھنے اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں شرکت سے اجتناب برتیں۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی عوام کی صحت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔ حکام کے بقول وہ علاقے کے رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ "اپنی ملازمتوں اور تعلیم کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کی غرض سے مناسب خوراک استعمال کریں"۔
واضح رہے کہ چین کے اس دوردراز صوبے میں مسلمانوں سمیت کئی نسلی اقلیتیں موجود ہیں اور ایغور نسل کے مسلمان صوبے کی آبادی کا لگ بھگ 45 فی صد ہیں۔
جلاوطن ایغور باشندوں کی تنظیم 'ورلڈ ایغور کانگریس' کے ترجمان دلشاد رسیت نے چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ سنکیانگ کی مقامی حکومت نے رمضان کے دوران علاقے میں سیکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے کی غرض سے کئی نئے منصوبے شروع کیے ہیں۔
دلشاد رسیت کے مطابق ان منصوبوں کے تحت سیکیورٹی اہلکاروں کو مساجد کی نگرانی کے علاوہ سرکاری سطح پر تقسیم کیے جانے والے مذہبی لٹریچر، نجی طور پر شائع ہونے والے کتب و رسائل کی ضبطی کے لیے گھروں کی تلاشی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔
'ورلڈ ایغور کانگریس' کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے خطے کی مساجد میں نمازیوں کی 'کمیونسٹ پارٹی' کے عہدیداران کے ساتھ "فکری نشستوں" کی منظوری بھی دی ہے۔
ایغور نسل کے مسلمان سنکیانگ کی آبادی کا لگ بھگ 45 فی صد ہیں
واضح رہے کہ چین کے آئین میں عوام کو مذہبی آزادیوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ سنہ 1984 میں چینی حکومت نے سنکیانگ سمیت بعض نیم خودمختار علاقوں میں اقلیتوں کو مقامی سطح پر قائم حکومتوں میں نمائندگی اور متعلقہ علاقوں کی معاشی ترقی میں سرگرم کردار سمیت کئی حقوق بھی دے دیے تھے۔ لیکن چین کے مختلف علاقوں میں ان قوانین پر عمل درآمد کی صورت میں خاصا تفاوت پایا جاتا ہے۔
سنکیانگ کے علاقے میں مذہبی تعلیم کےحصول کے لیے مسلمانوں کے مدارس کے قیام کی اجازت دینے کے بارے میں بھی مقامی حکومت خاصی محتاط ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداران اس خدشے کا شکار ہیں کہ ان مدارس کےنتیجے میں ایغور مسلمان انتہا پسندی کی جانب مائل ہوسکتے ہیں۔
سنکیانگ کے علاقے پر چینی اقتدار کے خلاف علاقے میں ایغور مسلمانوں کی برائے نام مسلح بغاوت بھی جاری ہے جس کا ذمہ دار چینی حکومت پاکستانی قبائلی علاقوں میں تربیت پانے والے ایغور مسلمانوں کو ٹہراتی ہے۔
گزشتہ برس جب علاقے کے بڑے شہروں کاشغر اور ہوتان میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں 40 افراد ہلاک ہوئے تھے تو سنکیانگ کے گورنر نے الزام عائد کیا تھا کہ علاقے میں موجود شدت پسندوں کے پاکستان میں وسیع روابط موجود ہیں۔
ان واقعات کے بعد سے چین نے اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان پر مشترکہ سرحدی علاقے کی نگرانی سخت کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ چین نے سنکیانگ کے مسلم مزاحمت کاروں کے پاکستان میں تربیت پانے کا معاملہ انسدادِ دہشت گردی سے متعلق چین امریکہ مذاکرات میں بھی اٹھا یا تھا۔
تاہم چینی حکومت کے موقف کے برعکس امریکی محکمہ خارجہ نے دنیا میں دہشت گردی کی تازہ صورتِ حال کے موضوع پر اپنی حالیہ رپورٹ میں چینی حکومت پر الزامات عائد کیا ہے کہ وہ انسدادِ دہشت گردی کی آڑ میں سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہی ہے۔