مودی کی صدر شی سے ملاقات، کیا سرحدی کشیدگی کم ہو گی؟

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کی 'برکس' اجلاس کے دوران ملاقات کے بعد بعض مبصرین دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی اُمید ظاہر کر رہے ہیں۔

22 سے 24 اگست تک جوہانسبرگ میں ہونے والے اجلاس کے دوران نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان غیر رسمی بات چیت ہوئی۔

رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر کشیدگی کے خاتمے پر رضا مندی ظاہر کی۔ اگلے ماہ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے جی۔20 سربراہی اجلاس سے قبل اس ملاقات کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔

بھارت کے خارجہ سیکریٹری ونے موہن کواترا کے مطابق دونوں میں ایل اے سی پر متنازع مقامات سے افواج کی واپسی کی کوشش تیز کرنے کے سلسلے میں اپنے متعلقہ حکام کو ہدایت دینے پر بھی اتفاق ہوا۔

برکس اجلاس کے دوران اسٹیج شیئر کرنے کے موقع پر دونوں رہنماؤں کو ساتھ ساتھ چلتے اور بات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ قبل ازیں دونوں کی ملاقات گزشتہ سال انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہونے والے جی۔20 سربراہی اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت ان کے درمیان مختصر بات چیت ہوئی تھی۔

تاہم جوہانسبرگ میں ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں قدرے فرق دیکھا گیا۔

موہن کواترا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی نے شی جن پنگ کے سامنے ایل اے سی اور بھارت چین سرحد پر دیگر مقامات پر تنازعات کے حل نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔

ان کے مطابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ بھارت چین تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سرحد پر امن و استحکام کا قیام اور ایل اے سی کا احترام ناگزیر ہے۔ جب کہ ان کے بیان کے بعد چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ مودی اور شی جن پنگ نے بھارت چین تعلقات کی موجودہ صورتِ حال اور باہمی مفادات کے دیگر سوالوں پر خوش گوار ماحول میں وسیع تبادلۂ خیال ہوا۔

بیان کے مطابق چینی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ چین بھارت تعلقات میں بہتری دونوں ملکوں کے عوام کے مشترکہ مفاد میں ہے اور یہ دنیا اور خطے کے امن، استحکام اور ترقی کے لیے بھی سازگار ہے۔

چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر شی جن پنگ نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی درخواست پر ان سے ملاقات کی۔ جب کہ بھارتی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ اس ملاقات کی درخواست چین نے بہت پہلے کر رکھی تھی۔

اخبار ’راشٹریہ سہارا‘ کے سابق نیوز ایڈیٹر اور ’سماچار ککش‘ یو ٹیوب چینل کےمینیجنگ ایڈیٹر مفیض جیلانی کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اور شی جن پنگ میں مختصر اور غیر رسمی ملاقات سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے سرحدی تنازعات کو حل کرنے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مودی نے دو وجوہات سے شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ ایک تو اندرونی سیاست کی وجہ سے اور دوسرے جی۔20 اجلاس کی میزبانی کی وجہ سے۔

ان کے مطابق اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے مودی حکومت پر بار بار یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ سختی سے بات نہیں کر رہی ہے۔

چین نے بھارتی زمین پر قبضہ کر لیا اور مودی کہتے ہیں کہ کوئی قبضہ نہیں ہوا۔ اس طرح اپوزیشن نے اس ایشو کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ راہل گاندھی نے جمعرات کو کارگل میں مقامی باشندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر الزام لگایا کہ چین نے بھارت کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے لیکن مودی حکومت خاموش ہے۔

مفیض جیلانی کے خیال میں وزیرِ اعظم مودی اپوزیشن کو چپ کرانے کے لیے شی جن پنگ سے ملاقات چاہتے تھے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے سال ملک میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ لہٰذا مودی نے اس ملاقات سے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ چین کے سامنے کمزور نہیں پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعے کو بیشتر اخبارات نے اس خبر کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے مودی نے شی جن پنگ کو کوئی بہت سخت پیغام دیا ہے۔

دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ حساس سرحدی تنازعات اور فوجی سرگرمیوں سے متعلق تشویش کو ایک طرف رکھا جائے اور تجارت سمیت دیگر تمام شعبوں میں باہمی تعاون کے فروغ اور تعلقات کو معمول پر لانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔

سینئر تجزیہ کار ششر گپتا کہتے ہیں کہ چین 1977 سے ہی سرحدی تنازعات کو تجارتی تعلقات سے الگ رکھ کر متوازی ٹریک ڈپلومیسی کی وکالت کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے بھارت کو تقریباً 70 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔

ان کے مطابق اس ملاقات کے تعلق سے بھارت اور چین کی جانب سے الگ الگ بیانات کے اجرا سے یہ واضح ہے کہ بات چیت کے دوران کسی مشترکہ ایشو پر بات نہیں ہوئی۔ البتہ دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے ملکوں کے مؤقف کو پیش کیا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ نئی دہلی میں ہونے والے جی۔20 اجلاس سے قبل دونوں کی یہ ملاقات کافی اہم سمجھی جا رہی ہے۔ بھارت جی۔20 کا صدر اور سربراہی اجلاس کا میزبان ہونے کے ناطے چاہتا ہے کہ شی جن پنگ سمیت تمام رکن ملک کے سربراہ اجلاس میں شریک ہوں۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں اگر شی جن پنگ اجلاس میں شریک نہیں ہوتے ہیں تو اجلاس کی کامیابی مشکوک مانی جائے گی۔ حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ شی جن پنگ اجلاس میں شرکت کریں گے لیکن ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ وہ شریک ہوں گے۔

دریں اثنا بھارتی میڈیا میں ایسی رپورٹس ہیں کہ ملٹری کمانڈرز کی جانب سے افواج کی واپسی کے سلسلے میں ایک پلان تیار کیا گیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ افواج کی واپسی ایل اے سی پر متنازع مقامات سے بھی ہوگی یا نہیں۔ تاہم ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ جی۔20 اجلاس سے قبل فوجوں کی محدود واپسی کا امکان ہے۔

رپورٹس کے مطابق گزشتہ دنوں دونوں ملکوں کے ملٹری کمانڈرز کے درمیان ہونے والے 19 ویں دور کے مذاکرات کے بعد فوجوں کی محدود واپسی پر تبادلۂ خیال ہو رہا ہے۔ البتہ اس بارے میں اعلیٰ قیادتوں کے اشارے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ سرحدی تنازعے کو حل کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے دررمیان ملٹری کمانڈرز کی سطح پر 19 دور کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ انیسویں دور کے مذاکرات 13 اور 14 اگست کو ہوئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب مذاکرات دو روز تک جاری رہے۔

جون 2020 میں گلوان وادی میں دونوں ملکوں کے درمیان خونیں تصادم کے بعد جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے، دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی قائم ہے۔ اگر چہ اس سے قبل کمانڈرز سطح کے مذاکرات کے بعد بعض مقامات سے دونوں ملکوں کی افواج پیچھے ہٹی ہیں لیکن اب بھی کئی مقامات پر تنازع برقرار ہے۔

گلوان تصادم کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے سرحد پر 60-60 ہزار فوجی اور بڑی تعداد میں چھوٹے اور بڑے ہتھیار تعینات کیے گئے ہیں۔