چین نے کلائمیٹ کانفرنس میں شرکت کی توثیق کر دی، یورپی یونین کا گرین ہاوس گیس بارے بڑا اعلان

Biden Climate Virtual Diplomacy

چین کے صدر ژی جن پنگ جمعرات کو ماحولیاتی تبدیلیوں پر ہونے والے عالمی سربراہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس اجلاس کا اہتمام صدر جو بائیڈن نے کیا ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین نے 2030 تک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں پچپن فیصد تک کمی لانے کے عبوری معاہدے کا اعلان کیا ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہووا چن ینگ نے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ صدر ژی آن لائن یا ورچول کانفرنس میں اہم تقریر کریں گے۔

چین صدر ژی،دنیا کے ان چالیس ممالک میں شامل ہیں جو دو روزہ ورچوئل سربراہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ ان سربراہان مملکت میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن بھی شامل ہیں۔ ژی کی جانب سے کانفرس میں شرکت کی دعوت قبول کرنے سے قبل حال ہی میں موسمیاتی تبدیلیوں پر صدر بائیڈن کے خصوصی نمائندے جان کیری نے چین کے اپنے ہم منصب ژی زیہینوا سے شنگھائی میں مذاکرات کیے ہیں۔

جو بائیڈن کے جنوری میں امریکہ کے صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پہلی بار چینی راہنما ژی جن پنگ کا ان کے ساتھ ورچول رابطہ ہوگا اور یہ پیش رفت ایسے میں ہو رہی ہے جب واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان متعدد معاملات پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان معاملات میں بیجنگ کا نیم خودمختار ہانگ کانگ پر سخت ہوتا ہوا کنٹرول اور شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ویغور مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک شامل ہیں۔

موسمیاتی تغیر پر عالمی سربراہ اجلاس، اس معاملے پر امریکہ کے قائدانہ کردار کو بحال کرنے کی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ جو بائیڈن کے پیش رو، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اس مسئلے پر رویہ بالکل مختلف تھا اور انہوں نے 2015 کے پیرس معاہدے سے بھی امریکہ کو الگ کر لیا تھا جس کا مقصد عالمی سطح پر کاربن گیس کے اخراج میں کمی لانا تھا۔ صدر بائیڈن نے ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوراً بعد امریکہ کو دوبارہ معاہدے کا حصہ بنا دیا تھا۔

ادھر یورپی یونین نے بدھ کے روز ایک عبوری معاہدے کا اعلان کیا جس کا مقصد ستائیس رکنی بلاک کے اندر 2030 تک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں پچپن فیصد تک کمی لانا ہے۔

2030 کے لیے یہ ہدف 2050 تک کاربن کے مکمل خاتمے کے بڑے مقصد کے حصول کا حصہ ہے۔

یورپی کمشن کی صدر ارسولا ون در لئین نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ یورپی یونین کی پوری ایک نسل کو سبز راستے پر ڈال رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ دراصل ہمارا اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے لیے ایک وعدہ اور ایک عزم ہے۔

معاہدہ کو باضابطہ دستاویز بنانے کے لیے یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف اس کی منظوری لازمی ہے۔