ہم اکثر سیاست دانوں اور صحافیوں کی زباں بندی پر بات کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں فن کاروں کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انور مقصود سے زیادہ کون یہ بات جانتا ہے۔
پاکستان میں جب الیکٹرونک میڈیا کے نام پر صرف ریڈیو اور پی ٹی وی تھا، تب انور مقصود کے کئی خاکوں پر پابندی لگی۔ ایک بار کسی پروگرام میں ایک خاتون نے کہا کہ ان کے گال کشمیری سیب جیسے ہیں۔ انور مقصود نے پوچھا، آزاد یا مقبوضہ؟ بس، اسے روک لیا گیا۔
انور مقصود مزاح لکھتے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں آتا ہے، کسی کی نہیں آتا۔ بابوؤں کو تو بالکل سمجھ نہیں آتا۔ چنانچہ مارشل لائی دور ہی نہیں، جمہوری ادوار میں بھی ان کے اسکرپٹس پر اعتراض کیا جاتا رہا ہے۔
لیکن اس بار واقعہ یہ ہوا کہ انور مقصود کے لکھے ہوئے ایک خاکے پر سوشل میڈیا پر غدر مچ گیا۔ کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ انور مقصود نے سندھی بولنے والوں کی تضحیک کی ہے۔
اس اسکٹ میں انور مقصود ایک سندھی لہجے والے شخص کا انٹرویو کرتے ہیں جو کوئی کام نہیں کرتا اور بینک سے قرضے لے کر ہڑپ کرجاتا ہے۔ بات زیادہ بڑھی تو انور مقصود کو ایک وڈیو بیان ریکارڈ کروانا پڑا جس میں انھوں نے معذرت طلب کی۔
انور مقصود نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے عام سندھی کا نہیں، ایک وڈیرے کا خاکہ کیا تھا۔ لینڈلارڈ بینک سے پیسے لے کر واپس نہیں کرتے۔ میں عام سندھی کا کیوں مذاق اڑاؤں گا۔ سارے سندھی میرے دوست ہیں۔ جمن، یوسف، عابدہ پروین، مائی بھاگی بھی۔ نثار کھوڑو، زرداری صاحب، بینظیر صاحبہ، سب سے میری جان پہچان رہی ہے۔
انور مقصود نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مزاح کی بھی وضاحت کرنا پڑے تو عجیب سا لگتا ہے۔ لوگ اس قدر حساس ہوگئے ہیں، مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ میں نے پنجابیوں کے سو خاکے لکھے ہیں، پٹھانوں کے بھی ہیں، مہاجروں کے سب سے زیادہ ہیں۔ معین اختر زندہ تھے تو انھوں نے سندھیوں کے گیارہ خاکے کیے تھے۔ لیکن تب کسی کو برا نہیں لگا۔
انور مقصود کا سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ نہیں۔ انھوں نے اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نئی نئی مشینیں نکل آئی ہیں جن سے لمحہ بھر میں ہنگامہ مچ جاتا ہے۔